ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ نَزَّلَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ ۗ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِي الْكِتَابِ لَفِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ
یہ عذاب اس لیے ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے سچی کتاب حق کے ساتھ نازل فرمائی‘ بلاشبہ جن لوگوں نے اس کتاب میں اختلاف کیا وہ دور کے جھگڑے میں ہیں
[٢٢٠]اختلاف امت اور فرقہ پرستی کے اسباب :۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ایک بہت بڑی حقیقت سے مطلع فرمایا ہے جو یہ ہے کہ جو لوگ اختلاف کرتے ہیں اور مختلف فرقوں میں بٹ جاتے ہیں تو اس کی وجہ یہ نہیں ہوتی کہ حق ان پر مشتبہ ہوجاتا ہے بلکہ اس کی اصل وجہ ان کی باہمی ضد ہوتی ہے جس میں وہ دور تک چلے جاتے ہیں۔ چنانچہ آپ خود ملاحظہ فرما لیجئے کہ اسلام میں جتنے فرقے پیدا ہوئے ہیں۔ سب اپنے حق میں کتاب و سنت سے ہی استدلال کرتے ہیں۔ یہ استدلال عموماً غلط ہوتا ہے اور کبھی صحیح بھی ہوتا ہے مگر استدلال کے اختلاف میں رواداری کے بجائے جب ضد پیدا ہوجائے اور استدلال کرنے والا اپنی بات پر اڑ جائے تو یہیں سے نئے فرقہ کی ابتدا شروع ہوجاتی ہے۔ جس کے لیے قرآن کریم میں بے شمار مقامات پر سخت وعید آئی ہے۔ واضح رہے کہ ہر گمراہ فرقے کی بنیاد یا تو کسی شرکیہ عقیدہ اور عمل پر استوار ہوتی ہے اور یا کسی بدعی عقیدہ و عمل پر۔ پھر اپنے اس بدعی عقیدہ کو کھینچ تان کر کتاب و سنت سے درست یا جائز ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اب ظاہر ہے کہ جو شخص بدعی عقیدہ یا عمل رائج کرنا چاہتا ہے۔ اسے کوئی نہ کوئی روکنے اور ٹوکنے والا بھی ہوتا ہے۔ لیکن بدعی عقیدہ کا موجد اور اس کے متبعین کے لیے حق کو ماننے کے بجائے انا اور ضد کا مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے۔ اس طرح ایک نیا فرقہ وجود میں آ جاتا ہے اور اس حقیقت کو قرآن مجید نے چار مختلف مقامات پر ذکر کیا ہے۔ اور اس کی وجہ یہی ﴿بَغْیًا بَیْنَھُمْ ﴾ ہی بتلائی ہے۔ یعنی اس کی وجہ یہ ہرگز نہیں ہوتی کہ کتاب و سنت میں اس کا واضح حل موجود نہیں ہوتا۔ (نیز دیکھئے اسی سورۃ کا حاشیہ نمبر ٢٨٢)