سورة الرعد - آیت 33

أَفَمَنْ هُوَ قَائِمٌ عَلَىٰ كُلِّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ ۗ وَجَعَلُوا لِلَّهِ شُرَكَاءَ قُلْ سَمُّوهُمْ ۚ أَمْ تُنَبِّئُونَهُ بِمَا لَا يَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ أَم بِظَاهِرٍ مِّنَ الْقَوْلِ ۗ بَلْ زُيِّنَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا مَكْرُهُمْ وَصُدُّوا عَنِ السَّبِيلِ ۗ وَمَن يُضْلِلِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ هَادٍ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” تو کیا وہ جو ہر نفس پرنگران ہے جو اس نے کمایا اور انہوں نے اللہ کے شریک بنا لیے۔ ان سے پوچھیں کہ ان کے نام بتلاؤیا کیا تم اللہ کو اس چیز کی خبر دیتے ہو جسے وہ زمین میں نہیں جانتا یا ویسے ہی کہہ رہے ہوبلکہ جن لوگوں نے کفر کیا ان کے لیے ان کا مکر خوشنمابنا دیا گیا ہے اور وہ صحیح راستے سے روک دیے گئے اور جسے اللہ گمراہ کردے اسے کوئی ہدایت دینے والا نہیں۔“ (٣٣) ”

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٤٤] معبودان باطلہ کے صفاتی نام، کوئی دلیل یا تجربہ؟ :۔ یہاں نام سے مراد ان شریکوں کے صفاتی نام ہیں۔ جیسے فرمایا : ﴿ اَللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ لَہُ الْاَسْمَاءُ الْحُسْنٰی ﴾ اس آیت میں بھی اسم سے مراد صفاتی نام ہیں یعنی ذرا یہ تو بتاؤ کہ تمہارے یہ شریک کیا کیا کارنامے سرانجام دے سکتے ہیں؟ اور اس کی دلیل کیا ہے؟ کیا کسی الہامی کتاب میں کہیں یہ لکھا ہے کہ اللہ نے فلاں فلاں اختیارات فلاں دیوتا یا بزرگ کو سونپ دیئے ہیں۔ یا تم اللہ کو ایسی چیز کی اطلاع دینا چاہتے ہو جس کا وجود ساری زمین میں کہیں پایا ہی نہیں جاتا۔ اللہ تعالیٰ نے صرف زمین کا نام اس لیے لیا کہ مشرکوں نے معبود اسی زمین پر ہی اپنے لیے بنا رکھے تھے۔ مثلاً کسی شریک کے متعلق انہوں نے مشہور کر رکھا کہ وہ گنج بخش ہے تو کیا وہ دکھا سکتے ہیں کہ وہ معبود واقعی لوگوں کو خزانے بخشتا رہتا ہے۔ کیا زمین میں ایسی بات پائی جاتی ہے جس کی اللہ کو خبر تک نہ ہوسکی؟ یا جو کچھ ان کے جی میں آئے بک دیتے ہیں اور ایسی باتیں ان شریکوں سے منسوب کردیتے ہیں۔ [٤٥] جھوٹے معبود اور کافروں کا مکر :۔ بات یوں نہیں بلکہ اصل بات یہ ہے کہ کچھ مکار قسم کے انسانوں نے عوام پر اپنی خدائی کا سکہ جمانے کے لیے اور ان کی کمایوں میں اپنا حصہ بٹانے کے لیے کچھ بناؤٹی شریک گھڑے، ان سے متعلق کچھ حکایات تصنیف کیں اور لوگوں کو ان کے تصرفات سے ڈرایا دھمکایا، پھر لوگوں کو ان کا معتقد بنایا اور اپنے آپ کو ان کا مجاور یا خلیفہ یا نمائندہ ٹھہرا کر اپنا الو سیدھا کرنا شروع کردیا اور یہی مشرکانہ عقائد نسلاً بعد نسل جاہل عوام میں رواج پاگئے اور تسلیم کرلیے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے ایسا مکر کرنے والوں اور اس مکر کو قبول کرنے والوں، سب کو کافر قرار دیا اور یہی لوگ دراصل اللہ کی سیدھی راہ (توحید) سے روک دیئے گئے ہیں اور لوگوں کے لیے بھی رکاوٹ بن گئے ہیں اور ایسے لوگوں کو جو اپنے ذاتی مفادات کی خاطر اللہ کی راہ میں رکاوٹ بن جاتے ہیں، اللہ کبھی سیدھی راہ نہیں دکھاتا۔