وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُم بِاللَّهِ إِلَّا وَهُم مُّشْرِكُونَ
اور ان میں سے اکثر اللہ پر ایمان لانے کے باوجود وہ شرک کرنے والے ہوتے ہیں۔“ (١٠٦) ”
[١٠١] مذہبی طبقہ کی اکثریت بھی ہمیشہ مشرک ہی ہوتی ہے :۔ اگرچہ اس دنیا میں ایک طبقہ ایسا بھی موجود رہا ہے جو اللہ تعالیٰ کے وجود کا بھی منکر ہے اور وہ اس کائنات کے وجود اور اس کے نظام کو محض اتفاقات کا نتیجہ قرار دیتا ہے۔ تاہم اکثریت اسی بات کی قائل رہی ہے کہ اس کائنات کا خالق و مالک اللہ تعالیٰ ہے اور وہی اس کا انتظام چلا رہا ہے۔ پھر اس مذہبی طبقہ میں بھی ایک قلیل طبقہ ایسا ہے جو اللہ تعالیٰ کی الوہیت اور اس کی صفات میں کسی دوسرے کو شریک نہیں بناتے اور یہی طبقہ فی الحقیقت راہ مستقیم پر ہے۔ اس مذہبی طبقہ میں بھی اکثریت ایسے ہی لوگوں کی رہی ہے جو اللہ کے خالق و مالک ہونے کا اقرار بھی کرتے جاتے ہیں۔ مشرکین مکہ کا تلبیہ :۔ پھر اس کے ساتھ دوسروں کو شریک بھی بناتے جاتے ہیں اور یہ بات صرف مشرکین مکہ سے مختص نہیں بلکہ ان سے پہلے بھی یہی کچھ ہوتا رہا اور ان کے بعد آج تک بھی یہی صورت حال ہے۔ مشرکین مکہ کے اصل عقیدہ کی وضاحت اس تلبیہ سے صاف واضح ہوتی ہے جو وہ حج و عمرہ کے احرام باندھتے وقت یوں پکارتے تھے : ( لیبک لا شریک لک الا شریکا ھولک تملکہ وماملک) (مسلم، کتاب الحج، باب التلبیۃ) یعنی اے اللہ! میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں سوائے اس کے جسے تو نے اختیار دے رکھا ہے وہ خود کوئی اختیار نہیں رکھتا۔ یہی عقیدہ شرک کی سب سے بڑی بنیاد ہے اور یہ آج بھی ویسے ہی پایا جاتا ہے۔ جیسا کہ مشرکین مکہ میں یا ان سے بھی پہلے پایا جاتا تھا۔ آج بھی لوگ اولیاء اللہ کے تصرفات کے بڑی شدت سے قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ تصرفات اور اختیارات انھیں اللہ ہی نے عطا کئے ہوئے ہیں جس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا کہ یہ بات تم کسی الہامی کتاب سے دکھلا سکتے ہو کہ اللہ نے فلاں فلاں قسم کے اختیارات فلاں فلاں لوگوں کو تفویض کر رکھے ہیں؟