سورة یوسف - آیت 80

فَلَمَّا اسْتَيْأَسُوا مِنْهُ خَلَصُوا نَجِيًّا ۖ قَالَ كَبِيرُهُمْ أَلَمْ تَعْلَمُوا أَنَّ أَبَاكُمْ قَدْ أَخَذَ عَلَيْكُم مَّوْثِقًا مِّنَ اللَّهِ وَمِن قَبْلُ مَا فَرَّطتُمْ فِي يُوسُفَ ۖ فَلَنْ أَبْرَحَ الْأَرْضَ حَتَّىٰ يَأْذَنَ لِي أَبِي أَوْ يَحْكُمَ اللَّهُ لِي ۖ وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” پھر جب اس سے بالکل ناامید ہوگئے تو مشورہ کرنے کے لیے الگ جا بیٹھے، ان کے بڑے نے کہا کیا تم نہیں جانتے کہ تمہارے باپ نے تم سے اللہ کی قسم کے ساتھ عہد لیا ہے اور اس سے پہلے تم نے یوسف کے بارے میں جو کوتاہی کی، اب میں اس زمین سے ہرگز نہ جاؤں گا۔ یہاں تک کہ میرا باپ مجھے حکم دے یا اللہ میرے لیے کوئی فیصلہ کر دے اور وہ تمام فیصلہ کرنے والوں سے بہتر فیصلہ کرنے والاہے۔“ (٨٠) ”

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٧٧] بڑے بھائی کا واپس جانے سے انکار جب یوسف علیہ السلام نے ایسا احسان کرنے سے صاف جواب دے دیا تو سب بھائی تنہائی میں جاکر موجودہ پریشان کن صورت حال پر غور کرنے لگے۔ نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن والا معاملہ بن گیا تھا۔ اگر انہوں نے پہلے یوسف کے معاملہ میں زیادتی نہ کی ہوتی تو اب صورت حال اس قدر سنگین نہ ہوتی۔ ان حالات میں بڑے بھائی نے سابقہ واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنے آپ کو اپنے باپ کو منہ دکھانے کے قابل نہیں سمجھتا۔ البتہ تم لوگ جاکر باپ کو اس صورت حال سے مطلع کردو۔ میں یہیں رہوں گا اور پھر کوشش کروں گا کہ بن یمین کو ان لوگوں سے لاسکوں یا پھر مجھے موت آجائے، یا اگر میرا باپ مجھے اپنے پاس آنے کا حکم دے۔ تب ہی میں اپنے باپ کو منہ دکھا سکتا ہوں۔ اب جو بات اللہ کو منظور ہوگی وہی میرے لیے قابل قبول ہوگی اور وہی میرے حق میں کوئی بہتر فیصلہ کرے گا۔ بہرحال میں تمہارے ساتھ گھر جانے کو تیار نہیں اور اس پر موت کو ترجیح دیتا ہوں۔