قَالَ هَلْ آمَنُكُمْ عَلَيْهِ إِلَّا كَمَا أَمِنتُكُمْ عَلَىٰ أَخِيهِ مِن قَبْلُ ۖ فَاللَّهُ خَيْرٌ حَافِظًا ۖ وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ
اس نے کہا کیا اس کے معاملہ میں ویسا ہی اعتبار کروں جس طرح میں نے اس کے بھائی کے معاملہ میں اس سے پہلے تم پر اعتبار کیا، سو اللہ بہتر حفاظت کرنے والا ہے اور وہ سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔“ (٦٤)’
[٦١] بیٹوں کا بن یامین کو لے جانے پر اصرار اور باپ کا انکار :۔ جب برادران یوسف واپس اپنے گھر یعنی کنعان پہنچے تو جاتے ہی اپنے والد محترم کو اس گفتگو سے مطلع کیا جو ان کے اور شاہ مصر کے درمیان ہوئی تھی اور بڑی وضاحت سے یہ بھی بتلا دیا کہ اگر آپ بن یمین کو ہمارے ساتھ نہیں بھیجیں گے تو پھر ہمیں کبھی غلہ نہ مل سکے گا اور غلہ کی فراہمی اس دور کی سب سے اہم اور شدید ضرورت ہے۔ لہٰذا آپ ضرور اسے ہمارے ساتھ بھیج دیجئے اور جہاں تک ہم سے ہوسکا ہم ضرور اس کی حفاظت کریں گے۔ سیدنا یعقوب علیہ السلام نے انھیں جواب دیا کہ بالکل ایسی ہی بات تم نے اس وقت بھی کہی تھی۔ جب تم یوسف علیہ السلام کو اپنے ہمراہ لے گئے تھے۔ پھر معلوم نہیں کہ اس کے ساتھ کیا ماجرا گزرا تم نے بھلا کونسی صحیح بات مجھے بتلائی تھی اور میری تو اس وقت سے اس کے حق میں یہی دعا رہی ہے کہ اللہ اسے زندہ سلامت قائم و دائم اور اپنی حفاظت میں رکھے۔ جہاں کہیں بھی وہ ہو، میں تو ہمیشہ اللہ سے اس کے رحم کا طالب رہا ہوں اور اب تم میرے اس چھوٹے بیٹے کو بھی مجھ سے جدا کرنا چاہتے ہو، یہ کبھی نہیں ہوسکتا۔