قَالَ رَبِّ السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا يَدْعُونَنِي إِلَيْهِ ۖ وَإِلَّا تَصْرِفْ عَنِّي كَيْدَهُنَّ أَصْبُ إِلَيْهِنَّ وَأَكُن مِّنَ الْجَاهِلِينَ
” اس نے کہا اے میرے رب ! مجھے قید خانہ اس سے زیادہ پسند ہے جس کی طرف یہ مجھے دعوت دے رہی ہیں اور اگر تو مجھ سے ان کے فریب کو نہ دور کرے گا تو میں ان کی طرف مائل ہو کر جاہلوں سے ہوجاؤں گا۔“ (٣٣) ”
[٣٢] مصری تہذیب کی فحاشی کا نمونہ :۔ غور فرمائیے۔ یہ دور سیدنا یوسف علیہ السلام کے لیے کس قدر ابتلاء کا دور تھا۔ پہلے ایک عورت پیچھے پڑی تھی۔ اب شہر بھر کے رؤسا کی حسین و جمیل بیگمات آپ کے پیچھے پڑگئیں جو زبانی تو سیدنا یوسف علیہ السلام کو زلیخا کی بات مان لینے اور قید سے بچ جانے کی تلقین کر رہی تھیں مگر حقیقتاً ان میں سے ہر ایک انھیں اپنی طرف مائل کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ آپ کا شہر میں آزادانہ چلنا پھرنا بھی مشکل ہوگیا تھا۔ اب آپ کے سامنے دو ہی راستے رہ گئے تھے۔ ایک یہ کہ ان عورتوں کی بات مان لیں اور دوسرے یہ کہ قید ہونا گوارا کرلیں۔ ضمناً اس واقعہ سے اس دور کی اخلاقی حالت پر بھی خاصی روشنی پڑتی ہے کہ بے حیائی کس قدر عام تھی اور اس فحاشی کے سلسلہ میں عورتوں کو کس قدر آزادی اور بے باکی حاصل تھی اور ان کے مقابلہ میں مرد کتنے کمزور تھے یا کس قدر دیوث تھے؟ سیدنا یوسفؑ کی دعا اور قید کو ترجیح :۔ یہ صورت حال دیکھ کر سیدنا یوسف علیہ السلام نے اپنے آپ پروردگار سے ہی فریاد کی کہ اس دور ابتلاء میں تو ہی مجھے ثابت قدم رکھ سکتا ہے اور ان عورتوں کی مکاریوں سے محفوظ رکھ سکتا ہے ورنہ ان طوفانوں کا مقابلہ کرنے کی مجھ میں ہمت نہیں۔ میں تو اس گندے ماحول سے یہی بہتر سمجھتا ہوں کہ قید کی مشقت گوارا کرلوں۔ [٣٣] عالم بے عمل جاہل :۔ اس سے معلوم ہوا کہ جو عالم اپنے علم کے مطابق عمل نہ کرے وہ شرعی اعتبار سے جاہل ہے اور جاہل کے لفظ کا اس پر اطلاق ہوسکتا ہے۔