وَشَرَوْهُ بِثَمَنٍ بَخْسٍ دَرَاهِمَ مَعْدُودَةٍ وَكَانُوا فِيهِ مِنَ الزَّاهِدِينَ
اور انھوں نے اسے تھوڑی سی قیمت پرچند درہموں کے عوض بیچ دیا اور وہ اس میں رغبت نہ رکھنے والیتھے۔“ (٢٠)
[١٨] یوسف کو بیچنے والے کون تھے؟ برادران یوسف یا قافلے والے :۔ بائیبل کی روایت کے مطابق تو قرآن کے لفظ ﴿وَشَرَوْہُ﴾کی ضمیر کا مرجع برادران یوسف ہیں۔ یعنی برادران یوسف نے سیدنا یوسف علیہ السلام کو معمولی سی قیمت کے عوض قافلہ والوں کے ہاتھ بیچ ڈالا۔ کیونکہ وہ یوسف کی خبرگیری رکھتے تھے اور بروقت جھگڑا کھڑا کردیا کہ یہ لڑکا ہمارا غلام ہے جو گھر سے بھاگ آیا تھا اور ہم اس کی تلاش میں تھے۔ بالآخر انہوں نے ان قافلہ والوں سے معمولی سی قیمت کے عوض اس کی سودا بازی کرلی۔ کیونکہ یہ جو رقم انھیں مل رہی تھی مفت میں مل رہی تھی۔ لہٰذا انہوں نے اتنی قیمت کو بھی غنیمت سمجھا۔ ان کی اصل غرض تو یہی تھی کہ یوسف یہاں سے دور کسی ملک میں پہنچ جائے اور یہ مقصد پورا ہو رہا تھا اور یہی قصہ عوام میں زبان زد عام ہے۔ لیکن قرآن کا سیاق و سباق اس مفہوم کی تائید نہیں کرتا۔ قرآن کے مطابق اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ قافلہ والوں نے مصر میں جاکر اس لڑکے (یوسف علیہ السلام) کو فروخت کر ڈالا اور اسے معمولی قیمت میں اس لیے بیچ ڈالا کہ انھیں بھی یہ مال مفت میں ہاتھ لگ گیا تھا۔ لہٰذا زیادہ قیمت لگانے میں ان کی کوئی دلچسپی نہ تھی۔