سورة ھود - آیت 91

قَالُوا يَا شُعَيْبُ مَا نَفْقَهُ كَثِيرًا مِّمَّا تَقُولُ وَإِنَّا لَنَرَاكَ فِينَا ضَعِيفًا ۖ وَلَوْلَا رَهْطُكَ لَرَجَمْنَاكَ ۖ وَمَا أَنتَ عَلَيْنَا بِعَزِيزٍ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” انہوں نے کہا اے شعیب ! ہم تیری بہت سی باتیں نہیں سمجھتے جو تو کہتا ہے اور یقیناً ہم تجھے اپنے درمیان بہت کمزور دیکھتے ہیں اور اگر تیرا قبیلہ نہ ہوتا تو ہم ضرورتجھے سنگسار کردیتے اور تو ہم پر ہرگز غالب نہ آسکتا۔“ (٩١) ”

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٠٣] حرام خور کو حلال کمانا بہت مشکل ہوتا ہے :۔ یعنی یہ جو تم کاروبار میں سچائی، راست بازی اور دیانتداری کی باتیں کرتے ہو اگر ہم ایسا کریں گے تو ہمارا سارا کاروبار ہی مندا پڑجائے گا۔ مارکیٹ میں مقابلہ بڑا سخت ہے اگر ہم یہ کام نہ کریں گے تو کمائیں گے کیا اور کھائیں گے کیا ؟ لہٰذا یہ نصیحتیں تم اپنے پاس ہی رکھو ہم اگر ایسی دیانتداری سے کام لیں جیسی تم کہتے ہو تو ہمارا تو سارا کاروبار ہی ٹھپ ہوجائے گا اور ایک دن بھی نہ چل سکے گا۔ تمہاری یہ باتیں ہماری سمجھ سے باہر ہیں۔ اور واقعہ ہے بھی یہی کہ جب انسان حرام ذرائع سے مال کمانے کا عادی ہوجاتا ہے تو اس کے لیے حلال ذریعہ سے مال کمانا اتنا ہی دشوار نظر آتا ہے جتنا کسی بلند پہاڑ پر چڑھنا۔ یہاں حسب حال مجھے ایک واقعہ یاد آگیا ہے ایک گوالے کا بیٹا کچھ دین کا علم پڑھ گیا۔ لڑکا نیک تھا ایک دن اپنے باپ سے کہنے لگا : ’’ابا ! دودھ میں پانی ملانا چھوڑ دو اور بے شک دودھ کچھ مہنگا بیچ لیا کرو۔‘‘ باپ نے بیٹے کو تلخ لہجے میں جواب دیا چل دفع ہو تم تو کسی گوالے کے بیٹے ہی نہیں ہو۔ اس مختصر سے واقعہ سے ایک حرام خور کی پوری ذہنیت سمجھ میں آجاتی ہے۔ یہی ذہنیت شعیب علیہ السلام کی قوم کی تھی جنہوں نے اپنے پیغمبر کو یوں جواب دیا تھا کہ ”تمہاری ان باتوں کی ہمیں سمجھ ہی نہیں آتی‘‘ [ ١٠٤] سیدنا شعیب علیہ السلام کو دھمکی :۔ تمہاری برادری کا ہمیں پاس ہے جو ہمارے ہی ہم خیال ہیں اگر یہ نہ ہوتے تو تم تو ایک کمزور سے آدمی ہو جس طرح تم نے ہمیں ستا رکھا ہے کب کا ہم نے تمہیں سنگسار کردیا ہوتا۔ تمہیں ہم اپنے مقابلے میں کیا سمجھتے ہیں؟