خَتَمَ اللَّهُ عَلَىٰ قُلُوبِهِمْ وَعَلَىٰ سَمْعِهِمْ ۖ وَعَلَىٰ أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ
اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں اور ان کے کانوں پر مہر لگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ہے اور ان کے لیے عذاب عظیم ہوگا
[١١] مہر کیسے کافروں کو لگتی ہے؟ اللہ تعالیٰ مہر صرف ان کافروں کے دلوں پر لگاتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ارشادات کو خوب سمجھ لینے کے بعد محض اپنی ہٹ دھرمی اور ضد کی وجہ سے ٹھکرا دیتے ہیں۔ جیسے ایک دوسرے مقام پر فرمایا : ﴿ وَجَحَدُوْا بِہَا وَاسْتَیْقَنَتْہَآ اَنْفُسُہُمْ ظُلْمًا وَّعُلُوًّا ﴾(۱۴:۲۷) اور ان لوگوں نے ہٹ دھرمی اور تکبر کی بنا پر (ان حقائق کا) انکار کردیا جن پر ان کے دل یقین کرچکے تھے اور ایک دوسرے مقام پر فرمایا : ﴿فَمَا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا بِمَا كَذَّبُوا مِن قَبْلُ كَذَٰلِكَ يَطْبَعُ اللَّـهُ عَلَىٰ قُلُوبِ الْكَافِرِينَ﴾(۱۰۱:۷) ’’جس بات کو پہلے ایک دفعہ جھٹلا چکے تھے اس پر ایمان لانے کے لیے آمادہ نہ ہوئے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کافروں کے دلوں پر مہر لگا دیتا ہے۔‘‘ رہے عام کافر تو ان میں سے کثیر تعداد مسلمان ہوتی ہی رہی ہے۔ [١٢] دل کا کام بات کو سمجھنا اور کان کا کام سننا ہے اور یہ دونوں اعضاء کسی مخصوص جانب کے پابند نہیں۔ لیکن آنکھ صرف سامنے سے ہی دیکھ سکتی ہے۔ لہٰذا دلوں اور کانوں پر تو مہر کا ذکر کیا گیا اور آنکھ پر صرف پردے کا۔ ایسے لوگ حقائق کو سمجھنے کے لیے کیا تیار ہوں گے جنہیں ان کا سننا اور دیکھنا بھی گوارا نہ ہو۔ کیونکہ کان اور آنکھ ہی تو دل کے دو بڑے دروازے ہیں جن سے دل کو ہر طرح کی معلومات فراہم ہوتی ہیں۔ مہرکیوں اور کب لگتی ہے؟ انسان کو اللہ تعالیٰ نے آنکھیں، کان اور دل اس لیے نہیں دیئے تھے کہ وہ ان اعضاء سے صرف اتنا ہی کام لے جتنا دوسرے حیوان لیتے ہیں اور جانوروں کی طرح صرف اپنے کھانے پینے اور دنیاوی مفادات پر ہی نظر رکھے۔ کیونکہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے فہم و دانش کی دوسرے جانوروں سے بہت زیادہ قوتیں عطا فرمائی ہیں۔ انسان کی ہدایت کے لئے اللہ تعالیٰ نے آسمانی کتابیں نازل فرمائیں جو انسان کی توجہ کو کائنات میں ہر سو اللہ تعالیٰ کی بکھری ہوئی نشانیوں کی طرف مبذول کرتی ہیں۔ تاکہ انسان ان سے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرے۔ پھر اگر انسان کانوں سے قرآن کی آیات کو سننا تک گوارا نہ کرے اور کائنات میں بکھری ہوئی آیات کو آنکھوں سے دیکھنے کی بھی زحمت گوارا نہ کرے تو اس کی ہدایت کی کوئی صورت باقی رہ جاتی ہے؟ اور اس سے بھی بدتر صورت حال ان لوگوں کی ہے جو اللہ کی آیات سن بھی لیتے ہیں اور ان کے دل انہیں سمجھ بھی لیتے ہیں، لیکن وہ اپنی چودھراہٹوں یا بعض دوسرے دنیوی مفادات کی خاطر حق کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے، بلکہ الٹا مخالفت اور تعصب پر اتر آتے ہیں تو ایسے لوگوں کی آئندہ ہدایت پانے کی بھی کوئی صورت باقی نہیں رہ جاتی اور اسی بات کو اللہ تعالیٰ نے دلوں اور کانوں پر مہر لگانے اور آنکھوں پر پردہ ڈالنے سے تعبیر فرمایا ہے اور اسی بات کی تائید درج ذیل مرفوع حدیث سے بھی ہوتی ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : بندہ جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ پڑجاتا ہے۔ پھر اگر وہ گناہ چھوڑ دے اور استغفار کرے اور توبہ کرے تو اس کا دل صاف کردیا جاتا ہے اور اگر دوبارہ کرے تو نقطہ بڑھ جاتا ہے حتیٰ کہ دل پر چھا جاتا ہے اور یہی وہ زنگ ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿کَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ ﴾ (ترمذی، ابواب التفسیر) مہر لگانے کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کیوں؟ رہی یہ بات کہ اگر کافروں کے دلوں اور کانوں پر مہر ان کی اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے لگتی ہے، تو اللہ تعالیٰ نے اس فعل کو اپنی طرف منسوب کیوں کیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بھی اللہ ہی کا قانون ہے کہ جن اعضاء یا جن قویٰ سے انسان کام لینا چھوڑ دیتا ہے یا ان کی فراہم کردہ معلومات کو پس پشت ڈال دیتا ہے تو ان اعضاء اور قویٰ کی استعداد از خود زوال پذیر ہو کر ختم ہوجاتی ہے۔ مثلاً انسان اگر اپنے بازو سے کچھ مدت کوئی کام نہ لے اور اسے حرکت تک نہ دے تو وہ از خود شل ہوجائے گا، اس میں حرکت کرنے کی استعداد باقی ہی نہیں رہے گی اور یہ قانون بھی چونکہ اللہ تعالیٰ ہی کا بنایا ہوا ہے۔ لہٰذا اس فعل کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف درست ہوئی۔ اگرچہ یہ انسان کے اپنے ہی شامت اعمال کے نتیجہ میں واقع ہوتی ہے۔