سورة یونس - آیت 57

يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِّمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اے لوگو! یقیناً تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے ایک نصیحت آگئی اور جو سینوں میں ہے اس کے لیے سراسر شفا ہے اور ایمان والوں کے لیے ہدایت اور رحمت آئی ہے۔“ (٥٧)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٧١] قرآن کی چار صفات اور ان کی ترتیب۔ موعظت ' شفا' ہدایت اور رحمت :۔ اس آیت میں قرآن کریم کی چار صفات بیان کی گئی ہیں۔ پہلی صفت موعظت ہے موعظت ایسی نصیحت کو کہتے ہیں جو انسان کی توجہ کو دنیا کے انہماک سے ہٹا کر اللہ کی یاد اور روز آخرت کی طرف مبذول کرے اور اس سے دلوں میں رقت اور دنیا سے بے رغبتی اور آخرت سے لگاؤ پیدا ہو۔ دوسری صفت یہ ہے کہ یہ قرآن دلوں کی بیماریوں مثلاً شرک اور کفر کا عقیدہ، حسد، بغض، خود غرضی، بخل، لالچ وغیرہ کے لیے شفا کا کام دیتا ہے جو شخص قرآن پڑھتا اور اس پر عمل کرتا ہے یہ روگ از خود اس کے دل سے دور ہوجاتے ہیں۔ تیسری صفت یہ ہے کہ قرآن انسان کی زندگی کے تمام شعبوں میں اس کی پوری طرح رہنمائی کرتا ہے وہ ہر فرد کے الگ الگ حقوق متعین کرتا ہے اور ایسے قوانین بتلاتا ہے جس سے فرد، معاشرہ اور حکومت میں سے کسی کے حقوق مجروح بھی نہ ہوں اور کسی دوسرے پر زیادتی بھی نہ ہو۔ اور اس کی چوتھی صفت یہ ہے کہ جو شخص قرآن پر عمل پیرا ہوتا ہے یا جو معاشرہ یا حکومت اس کی اتباع کرتی ہے اس پر اس دنیا میں بھی اللہ کی رحمتوں کا نزول ہوتا ہے اور آخرت میں بھی ہوگا۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے۔ ١۔ قرآن کے ذریعے سربلندی اور ذلت :۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ اس کتاب (قرآن کریم) کے ذریعہ بہت سے لوگوں کو سربلندی عطا فرمائے گا اور بہت سے لوگوں کو ذلیل کرے گا‘‘ (مسلم۔ کتاب فضائل القرآن، باب من یقوم بالقرآن ویعلمہ) ٢۔ سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اللہ کی کتاب میں ہدایت ہے اور روشنی ہے جس نے اسے مضبوطی سے پکڑے رکھا وہ ہدایت پر قائم ہوگیا اور جس نے اس سے غفلت برتی وہ گمراہ ہوگیا‘‘ اور زید بن ارقم ہی کی دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں : ’’یہ کتاب اللہ کی رسی ہے جو اس پر عمل پیرا ہوا وہ ہدایت پر ہوگا اور جس نے اسے چھوڑ دیا وہ گمراہی پر ہوگا۔‘‘ (مسلم، کتاب الفضائل۔ باب من فضائل علی بن ابی طالب)