سورة یونس - آیت 48

وَيَقُولُونَ مَتَىٰ هَٰذَا الْوَعْدُ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اور وہ کہتے ہیں یہ وعدہ کب پورا ہوگا، اگر تم سچے ہو۔“ (٤٨)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٦٥] عذاب کے وعدہ پر کافروں کا مذاق اور اس کا جواب :۔ کافروں کو دھمکی یہ دی گئی تھی کہ اگر وہ اللہ کی آیات کی تکذیب کریں گے تو انھیں ذلت اور رسوائی نصیب ہوگی اور بالآخر اسلام کا بول بالا ہوگا لیکن کافروں کی سمجھ میں یہ بات آہی نہیں سکتی تھی کہ یہ مٹھی بھر ستم رسیدہ اور بے سروسامان مسلمان کسی وقت ان پر غالب آجائیں گے لہذا وہ از راہ تمسخر مسلمانوں سے پوچھتے تھے کہ بھئی اگر تم اپنے قول میں سچے ہو تو ایسا وعدہ کب پورا ہوگا ؟ ان کے اس تمسخر کا جواب اللہ نے دو طرح سے دیا ہے۔ ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرمایا کہ آپ ان سے کہہ دیجئے کہ میں تو اپنے بھی نفع و نقصان کا مالک نہیں مگر صرف اتنا ہی جتنا اللہ کو منظور ہوتا ہے پھر میں تم پر کیا عذاب ڈھا سکتا ہوں؟ عذاب دینا اللہ کا کام ہے میرا نہیں اور نہ ہی میں نے کوئی ایسا دعویٰ کیا ہے کہ میں تمہیں عذاب میں مبتلا کردوں گا یا فلاں وقت عذاب آئے گا ہاں جب اللہ کی مشیئت ہوگی تو تم پر ایسا عذاب آکے رہے گا اور دوسرا جواب یہ ہے کہ عذاب دینے کے متعلق بھی اللہ کا ایک قانون ہے جو یہ ہے کہ اللہ کسی کے گناہوں پر فوراً گرفت کرکے اس پر عذاب ڈھا کر اسے تباہ نہیں کردیتا بلکہ اس کو سنبھلنے کے لیے مہلت دیئے جاتا ہے پھر جب بار بار کی تنبیہ کے باوجود وہ راہ راست پر نہیں آتا تو اس وقت اس پر عذاب آتا ہے وہ وقت کب ہوتا ہے یہ اللہ ہی جانتا ہے اور جب عذاب کا وقت آجاتا ہے تو پھر اس میں قطعاً تقدیم و تاخیر نہیں ہوسکتی۔ عذاب کا معین وقت بتلا دینا اللہ کے دستور کے خلاف ہے یا جیسا کہ کسی کی موت یا قیامت کا وقت معین بھی بتلانا دستور کے خلاف ہے اس لیے کہ اس طرح یہ دنیا دارالامتحان نہ رہے گی جبکہ اللہ کی مشیئت یہی ہے کہ انسان کے لیے یہ دنیا دارالامتحان اور دارالعمل ہے۔