سورة التوبہ - آیت 122

وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنفِرُوا كَافَّةً ۚ فَلَوْلَا نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَائِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور ٹھیک نہیں کہ ایمان دار سب کے سب جہاد کے لیے نکل جائیں، ان میں سے کچھ لوگ کیوں نہ نکلے، تاکہ وہ دین میں سمجھ حاصل کریں اور تاکہ جب اپنی قوم کی طرف لوٹیں تو انھیں ڈرائیں، اس لیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بچ جائیں۔“ (١٢٢)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٣٩] دین کا علم سیکھنا فرض کفایہ ہے :۔ اس آیت کے دو مفہوم بیان کیے جاتے ہیں۔ اور وہ دونوں ہی درست ہیں۔ ایک یہ کہ یہ آیت جہاد سے متعلق ہے۔ اور اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جہاد فرض عین نہیں البتہ جب اسلامی حکومت کی طرف سے جہاد کا اعلان عام ہوجائے تو اس وقت صاحب استطاعت لوگوں پر جہاد فرض عین ہوجاتا ہے جیسا کہ غزوہ تبوک میں ہوا تھا اور اس صورت میں جہاد سے پیچھے رہ جانے والے گنہگار ہوتے ہیں اور سب لوگوں کے لیے یہ ممکن اس لیے نہیں ہوتا بلکہ بسا اوقات مسلمانوں کا ایک حصہ پیچھے رہنا ضروری ہوتا ہے تاکہ دارالخلافہ یا دوسرے اہم مقامات کی دشمن سے حفاظت کرسکیں۔ عند الضرورت فوج کو رسد اور کمک بھیج سکیں۔ علاوہ ازیں معاشرہ میں کئی طرح کے معذور افراد بھی ہوتے ہیں۔ اس صورت میں اس آیت کا یہ معنی ہوگا کہ ہر بستی اور ہر قبیلہ کے کچھ لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ جانا ضروری ہے تاکہ وہ ان کی صحبت میں رہ کر دین کی سمجھ بوجھ پیدا کریں اور جب واپس اپنے گھروں کو آئیں تو ان سینکڑوں حوادث و واقعات سے متعلق ان لوگوں کو مطلع کریں جو جہاد پر نہیں گئے تھے اور اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خود جنگ پر تشریف نہیں لے گئے تھے تو جو کچھ پیچھے رہنے والوں نے نبی اکرم کی صحبت سے دین کی باتیں اور سمجھ بوجھ سیکھی ہے اس سے ان لوگوں کو مطلع کریں جو جہاد پر گئے ہوئے تھے۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ لوگوں کی جہالت دور کرے :۔ اور بعض علماء یہ کہتے ہیں کہ اس آیت کا تعلق جہاد سے نہیں بلکہ علم دین حاصل کرنے سے ہے یعنی تمام مسلمانوں اور بالخصوص بدوی قبائل (جن کے متعلق پہلے اسی سورۃ کی آیت نمبر ٩٧ میں بتلایا گیا ہے کہ وہ دین کی حدود اور اس کی حکمتوں کو سمجھ نہیں سکتے) کے لیے یہ ممکن نہیں کہ دین کا علم اور اس میں فہم حاصل کرنے کے لیے سب کے سب مدینہ آپ کے پاس چلے آئیں۔ لہٰذا لوگوں میں دینی شعور اور سمجھ بوجھ پیدا کرنے کے لیے ضروری ہے کہ ہر قبیلہ، قوم اور بستی میں سے کچھ لوگ مدینہ آ جائیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے فیض حاصل کریں پھر وہ واپس آ کر اپنی اپنی بستی، قوم یا قبیلہ کے لوگوں کو علم دین کی تعلیم دیں تاکہ ان کی جہالت دور ہو اور ان میں اسلامی نظام حیات کا صحیح صحیح شعور پیدا ہو۔ اور وہ اپنے طرز زندگی کو اسی سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کریں۔ حقیقی علم دین کا علم ہے :۔ یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جبکہ اسلام عرب کے اکثر حصہ پر غالب آ چکا تھا۔ بدوی قبائل دھڑا دھڑ اسلام میں داخل ہو رہے تھے مگر ابھی تک ان کے نہ جاہلی نظریات ختم ہوئے تھے اور نہ دین کا ابھی حقیقی شعور پیدا ہوا تھا اس آیت میں علم کی اہمیت کو واضح کیا گیا ہے اور بتلایا گیا ہے کہ اسلامی حکومت کا کام محض علاقے فتح کرنا نہیں بلکہ ساتھ ہی ساتھ لوگوں کی جہالت دور کرنا اور اسلامی نظریات کے مطابق ان کی تربیت کرنا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا جہاد ضروری ہے ضمناً اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حقیقی علم وہی کہلا سکتا ہے جس سے دین کی سمجھ بوجھ پیدا ہو اور ان سے دین کی تبلیغ و اشاعت میں کام لیا جا سکتا ہو۔ رہے دوسرے علوم تو وہ دنیا کی زندگی کے لیے خواہ کتنے ہی مفید کیوں نہ ہوں حقیقی علم نہیں کہلا سکتے۔ اس آیت کو خواہ جہاد پر نکلنے سے متعلق کیا جائے یا دین کا علم حاصل کرنے کے لیے نکلنے سے متعلق کیا جائے دونوں طرح درست ہے کیونکہ دین کا علم حاصل کرنے کے لیے نکلنا بھی جہاد فی سبیل اللہ ہی کی ایک قسم ہے اور اسلامی نظام حیات کے قیام کے لیے یہ دونوں شعبے ہی نہایت اہم اور فرض کفایہ ہیں۔