سورة البقرة - آیت 125

وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَأَمْنًا وَاتَّخِذُوا مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى ۖ وَعَهِدْنَا إِلَىٰ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَن طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اور جب ہم نے بیت اللہ کو لوگوں کے لیے ثواب اور امن و امان کا مقام بنایا اور ہم نے حکم دیا کہ مقام ابراہیم کو جائے نماز بناؤ ہم نے ابراہیم اور اسماعیل سے وعدہ لیا کہ تم میرے گھر کو طواف کرنے والوں‘ رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک صاف رکھو گے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٥١]مقام ابراہیم کی فضیلت :۔ مثابۃ بمعنی لوگوں کے بار بار آتے اور جاتے رہنے کی جگہ (بغرض حج، عمرہ، طواف، اور عبادت نماز وغیرہ) [ ١٥٢] وہ پتھر جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم علیہ السلام خانہ کعبہ کی تعمیر کرتے رہے۔ اسی پر کھڑے ہو کر آپ نے لوگوں کو حج کے لیے پکارا۔ یہ پتھر خانہ کعبہ کے صحن میں ہے اور آج کل اسے ایک چھوٹی سی شیشہ کی گنبد نما عمارت میں محفوظ کردیا گیا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے تین باتوں میں میری رائے اللہ کے علم کے موافق ہوگئی۔ (جن میں ایک یہ تھی) میں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا اچھا ہو اگر آپ مقام ابراہیم علیہ السلام کو نماز کی جگہ قرار دے دیں اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتار دی۔ ﴿وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰہٖمَ مُصَلًّی ﴾ چنانچہ طواف کرنے والے اسی مقام کے پاس دوگانہ نماز نفل ادا کرتے ہیں۔ [ ١٥٣] مساجدمیں صفائی کی فضیلت :معلوم ہوا مسجدوں کو صاف ستھرا رکھنا اور روشنی کا انتظام نہایت فضیلت والا کام ہے۔ جس کا اللہ تعالیٰ نے اپنے دو اولوا العزم رسولوں کو بطور خاص حکم دیا۔ یہاں صفائی سے مراد صرف ظاہری صفائی نہیں، بلکہ باطنی صفائی بھی ہے کہ اس گھر میں مشرک لوگ نہ آنے پائیں۔ جو اللہ کے علاوہ دوسروں کو بھی پکارنا شروع کردیں اور اسے گندا کردیں۔ اور مساجد کی صفائی اور آداب کے لیے درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے : ١۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مسجد میں تھوکنا گناہ ہے اور اس کا کفارہ اسے دفن کردینا (یا صاف کردینا) ہے (بخاری، کتاب الصلوٰۃ باب کفارۃ البزاق فی المسجد) ٢۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک کالی عورت مسجد میں جھاڑو دیا کرتی تھی۔ وہ مر گئی۔ آپ نے جب اسے نہ دیکھا تو لوگوں سے اس کا حال پوچھا۔ انہوں نے کہا : وہ مر گئی۔’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم نے مجھے کیوں نہ خبر کی۔ چلو اب اس کی قبر بتلاؤ‘‘ پھر آپ اس کی قبر پر گئے اور نماز پڑھی۔ (بخاری، کتاب الصلٰوۃ، باب کنس المسجد) ٣۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک گنوار آیا اور مسجد نبوی کے ایک کونے میں پیشاب کرنے لگا۔ لوگوں نے اسے جھڑکا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو جھڑکنے سے منع فرمایا۔ جب وہ پیشاب کرچکا تو آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ اس جگہ پانی کا ایک ڈول بہا دیا جائے۔ (بخاری، کتاب الوضوء، باب ترک النبی والناس الاعرابی حتی فرغ من بولہ فی المسجد) اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ جب اعرابی پیشاب سے فارغ ہوچکا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سمجھایا کہ یہ مسجدیں اللہ کے ذکر کے مقامات ہیں، بول و براز کے لئے نہیں لہٰذا انہیں صاف ستھرا رکھنا چاہیے۔ ٤۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو کوئی اس درخت یعنی لہسن کو کھائے وہ ہماری مسجد میں نہ آئے۔ عطا کہتے ہیں کہ میں نے جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کچی لہسن مراد ہے یا پکی ہوئی؟ انہوں نے کہا میں سمجھتا ہوں کہ اس سے کچی لہسن اور اس کی بدبو مراد ہے۔ (بخاری۔ کتاب الاذان، باب، ماجاء فی الثوم النی والبصل والکراث) ٥۔ سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں کھڑا تھا۔ کسی نے مجھ پر پتھر پھینکا، کیا دیکھتا ہوں کہ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہیں۔ انہوں نے مجھے کہا : جاؤ فلاں دو آدمیوں کو میرے پاس بلا لاؤ۔ میں انہیں بلا لایا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا : تم کون ہو اور کہاں سے آئے ہو؟ وہ کہنے لگے ہم طائف سے آئے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا، اگر تم اس شہر (مدینہ) کے رہنے والے ہوتے تو میں تمہیں ضرور سزا دیتا۔ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں اپنی آوازیں بلند کرتے (شور مچاتے) ہو۔ (بخاری، کتاب الصلٰوۃ، باب رفع الصوت فی المسجد)