سورة البقرة - آیت 118

وَقَالَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ لَوْلَا يُكَلِّمُنَا اللَّهُ أَوْ تَأْتِينَا آيَةٌ ۗ كَذَٰلِكَ قَالَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِم مِّثْلَ قَوْلِهِمْ ۘ تَشَابَهَتْ قُلُوبُهُمْ ۗ قَدْ بَيَّنَّا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اور بے علم لوگوں نے مطالبہ کیا کہ اللہ تعالیٰ ہم سے کلام کیوں نہیں کرتا۔ یا ہمارے پاس کوئی نشانی کیوں نہیں آتی؟ اسی طرح ان سے پہلے لوگوں نے مطالبہ کیا تھا۔ ان کے اور ان کے دل یکساں ہوگئے ہیں بلا شبہ ہم نے یقین کرنے والوں کے لیے نشانیاں بیان کردی ہیں

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٣٩] یعنی اس قسم کے مطالبات جاہل لوگ کیا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ خود ہمارے پاس آ کر بتائے کہ یہ واقعی میرا رسول ہے یا کوئی ایسی واضح علامت یا معجزہ ہمیں دکھلائے جس سے ہمیں یقین آ جائے۔ اسی صورت میں ہم ایمان لا سکتے ہیں۔ یہ سب جہالت کی باتیں ان میں سے اکثر ناممکن العمل ہیں۔ پہلے لوگ بھی ایسے مطالبے کرتے رہے اور آج بھی جاہل لوگ اسی طرح کے مطالبے کر رہے ہیں۔ [ ١٤٠] یعنی مزاج کے لحاظ سے پہلے زمانہ کے گمراہوں اور ان گمراہوں میں کچھ فرق نہیں۔ ایسے جاہل لوگ ایک ہی قسم کے اعتراضات اور مطالبات پیش کرتے رہتے ہیں۔ [١٤١] اور جن لوگوں نے ایمان لانا ہو ان کے لیے تو ہماری نشانیوں کی کوئی کمی نہیں۔ ایک ایک آیت پر ان کا ایمان پختہ سے پختہ تر ہوتا جاتا ہے اور جو لوگ کفر پر اڑے رہنا چاہتے ہیں انہیں البتہ کوئی نشانی نظر نہیں آتی۔