أَلَا تُقَاتِلُونَ قَوْمًا نَّكَثُوا أَيْمَانَهُمْ وَهَمُّوا بِإِخْرَاجِ الرَّسُولِ وَهُم بَدَءُوكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ ۚ أَتَخْشَوْنَهُمْ ۚ فَاللَّهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَوْهُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
” کیا تم ان لوگوں سے نہ لڑوگے جنہوں نے اپنی قسمیں توڑ دیں اور رسول کو نکالنے کا ارادہ کیا اور انہوں نے ہی پہلے تم سے ابتدا کی کیا تم ان سے ڈرتے ہو اللہ زیادہ حق دار ہے کہ اس سے ڈرو اگر تم ایمان رکھنے والے ہو۔“ (١٣)
[١٢] اعلان براءت کے بعد جہاد پر زور وترغیب کی وجوہ :۔ اس سے پیشتر مسلمانوں کو جہاد کی متعدد بار ترغیب دی جا چکی تھی اور مسلمان کئی معرکے اور جنگیں بھی کرچکے تھے۔ اب اعلان برأت کے بعد اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ان کے پچھلے مظالم یاد دلا دلا کر کافروں سے جنگ کرنے کی جو پرزور ترغیب دی ہے تو اس کی چند وجوہ تھیں مثلاً اعلان برأت کے وقت بھی مشرکین کی تعداد جزیرۃ العرب میں مسلمانوں سے زیادہ تھی اس لیے انہیں یہ خیال آ سکتا تھا کہ ایسی ذلت گوارا کرنے کے بجائے سب مل کر اسلام کا ہی نام و نشان مٹا دیں اور عرب جیسی جنگ جوا اور دلیرقوم سے ایسا خطرہ کچھ بعیداز عقل بھی نہ تھا۔ کیونکہ ایک تو ان کے تمام معاہدات کالعدم قرار دیئے جا رہے تھے اور دوسرے جلاوطنی کی دھمکی یا جنگ پر تیار ہوجانے کا چیلنج دے دیا گیا تھا، تیسرے کعبہ سے ان کی تولیت کو ختم کردیا گیا تھا۔ چوتھے کعبہ میں ان کا داخلہ ممنوع قرار دیا گیا تھا اور مکہ ہی وہ تجارتی مرکز تھا جس پر بالخصوص مقامی مشرکوں اور آس پاس کے رہنے والے مشرک قبائل کی معیشت کا زیادہ تر انحصار تھا۔ پانچویں یہ کہ جو لوگ نئے نئے مسلمان ہو رہے تھے ان کے اکثر اقربا ابھی تک مشرک تھے۔ اور ان سے تعلقات برقرر رکھنے کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی تھی۔ لہٰذا ان وجوہ کی بنا پر یہ عین ممکن تھا کہ سب مشرک متحد ہو کر مسلمانوں سے ایک عظیم جنگ کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے یا کم از کم عرب بھر میں وسیع پیمانہ پر مسلمانوں سے خانہ جنگی شروع ہوجاتی لہٰذا ضروری تھا کہ ایسے موقع پر مسلمانوں کو جہاد کی پرزور تلقین کی جاتی اور ان کے ذہن سے ان خطرات کو دور کیا جاتا جو اس پالیسی پر عملدرآمد کرنے کی صورت میں انہیں نظر آ رہے تھے اور انہیں ہدایت کی جاتی کہ انہیں اللہ کی مرضی پوری کرنے میں کسی بات سے خائف نہیں ہونا چاہیے۔