سورة البقرة - آیت 114

وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن مَّنَعَ مَسَاجِدَ اللَّهِ أَن يُذْكَرَ فِيهَا اسْمُهُ وَسَعَىٰ فِي خَرَابِهَا ۚ أُولَٰئِكَ مَا كَانَ لَهُمْ أَن يَدْخُلُوهَا إِلَّا خَائِفِينَ ۚ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوسکتا ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کی مسجدوں میں اللہ تعالیٰ کا ذکر ہوتے ہوئے روکے اور مسجدوں کی بربادی کی کوشش کرے ایسے لوگوں کو خوف کے ساتھ ہی مسجدوں میں جانا چاہیے۔ ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں عذاب ہو گا

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٣٤] جب نصاریٰ یہود پر غالب ہوئے تو انہوں نے یہود کو بیت المقدس میں داخل ہونے اور عبادت کرنے سے روک دیا تھا اور دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں مشرکین مکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کو کعبہ میں نماز ادا کرنے سے روکتے رہے۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر عمرہ سے روک دیا۔ اس طرح یہ لوگ اللہ کی مساجد کی رونق اور آبادی کے بجائے ان کی بربادی کے درپے ہوئے اور یہ بہت بڑا ظلم ہے۔ جو اللہ تعالیٰ کو قطعاً گوارا نہیں۔ چنانچہ فتح مکہ کے بعد مشرکین مکہ کی یہ پابندی ختم ہوئی اور بیت المقدس کو عہد فاروقی رضی اللہ عنہ میں مسلمانوں نے عیسائیوں سے آزاد کرا لیا۔ مساجد کے متولیوں کےاوصاف :۔ اللہ تعالیٰ کا اس حکم سے منشا یہ ہے کہ عبادت گاہوں کے متولی خالصتاً اللہ تعالیٰ کی پرستش کرنے والے اور اسی سے ڈرنے والے ہونے چاہئیں تاکہ شریر لوگ اگر وہاں جائیں تو انہیں خوف ہو کہ اگر شرارت کریں گے تو سزا پائیں گے۔ لیکن جو لوگ خلوص نیت سے عبادت کے لیے مساجد میں داخل ہوں۔ انہیں کسی وقت بھی مساجد میں داخل ہونے سے روکنا نہیں چاہیے۔ کیونکہ اللہ کی عبادت سے روکنا بہت بڑا گناہ ہے۔