سورة الانفال - آیت 24

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ ۖ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّهُ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ اور اس کے رسول کی دعوت قبول کرو، جب وہ تمہیں اس چیز کے لیے دعوت دے جو تمہیں زندگی بخشتی ہے اور جان لو کہ بے شک اللہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان رکاوٹ بن جاتا ہے اور یہ کہ بے شک حقیقت یہ ہے کہ تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤگے۔“ (٢٤)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٢٣] اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ کی زندگی بخش دعوت :۔ یعنی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دعوتی پیغام ایسا ہے جس سے تمہیں دنیا میں بھی عزت و اطمینان کی زندگی نصیب ہوگی اور آخرت میں بھی نعمتوں سے بھرپور ابدی زندگی حاصل ہوگی، اس کے مفہوم کو پوری طرح سمجھنے کے لیے یہ ذہن میں رکھئے کہ یہ سورت غزوہ بدر کے بعد نازل ہوئی۔ جب کہ مسلمانوں کی ایک ریاست قائم ہوچکی تھی اور وہ آزادانہ زندگی گزار رہے تھے اور غزوہ بدر میں فتح نے انہیں ایک مساوی قوم کا درجہ دے دیا تھا اور وہ آپس میں نہایت پیار، محبت اور بھائی بھائی بن کررہ رہے تھے۔ اب اس کے مقابلہ میں دور جاہلیت کے معاشرہ کو سامنے لائیے جب کہ لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے مدینہ میں جنگ بعاث نے اور مکہ میں حرب فجار نے گھروں کے گھروں کا صفایا کردیا تھا۔ قبائلی جنگیں کسی طرح ختم ہونے کو نہ آتی تھیں اور تم لوگ ان سے جان چھڑانے کی کوشش کرتے تھے۔ ہر طرف لوٹ مار کا بازار گرم تھا اور شراب کے دور چلتے تھے۔ کسی کی جان، مال اور عزت محفوظ نہیں رہی تھی اور لوگوں پر ان کا جینا حرام ہوچکا تھا۔ پھر اللہ اور اس کے رسول نے تمہیں وہ تعلیم دی کہ تمہاری زندگی کا رخ ہی موڑ دیا اور اب تم امن چین سے زندگی گزار رہے ہو۔ لہٰذا تمہیں فوراً اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنا چاہیے اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بلانے پر فوراً حاضر ہوجانا چاہیے۔ کیونکہ اسی میں تمہاری زندگی کا راز مضمر ہے۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ انسان خواہ کتنے ہی ضروری کام مثلاً فریضہ نماز میں بھی مشغول ہو تو اسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بلانے پر نماز چھوڑ کر فوراً حاضر ہونا چاہیے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے۔ رسول کے بلانے پر فورا حاضر ہونا :۔ ابو سعیدبن معلی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نماز پڑھ رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے سامنے سے گزرے اور مجھے بلایا۔ میں نماز پڑھ کر حاضر ہوا تو مجھے فرمایا : تم میرے بلانے پر فوراً کیوں نہ آئے؟ کیا تم نے اللہ کا یہ فرمان نہیں سنا ﴿یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ ﴾ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’میں جانے سے پہلے تمہیں قرآن کی بڑی سورت بتلاؤں گا۔‘‘ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم جانے لگے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات یاد دلائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’وہ سورت ﴿اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ﴾ ہے۔ اس میں سات آیتیں ہیں جو (ہر نماز میں) مکرر پڑھی جاتی ہیں۔‘‘ (بخاری، کتاب التفسیر) اور حدیث جریج سے علماء نے یہ مسئلہ مستنبط کیا ہے کہ والدین میں سے کسی ایک کے بلانے پر انسان کو نفلی نماز توڑ کر فوراً حاضر ہوجانا چاہیے۔ [ ٢٤] اللہ کے آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہونے کا مطلب دل کو شیطانی وساوس سے بچانے کی کوشش :۔ یعنی اللہ تعالیٰ انسان کے دل کے اتنا قریب ہے کہ وہ اس کے راز، ارادوں اور نیت تک کو جانتا ہے اور یہ دل ہی خیر و شر کا منبع ہے۔ لہٰذا مسلمان کو اللہ کے رسول کی اطاعت میں دیر نہ کرنی چاہیے۔ ورنہ ممکن ہے کہ بعد میں کوئی اور خیال پیدا ہوجائے اور اللہ تعالیٰ کا تو قانون ہی یہ ہے کہ انسان جیسا ارادہ یا نیت کرتا ہے۔ اللہ اس کے دل کو اسی طرح کی راہیں سجھانے لگتا ہے لہٰذا حتی الامکان دل کو شیطانی وساوس کی آماجگاہ بننے سے بچانا چاہیے اور اس کی واحد صورت یہ ہے کہ بلاتاخیر اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی جائے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اکثر یہ دعا مانگا کرتے تھے۔ اللّٰھُمَّ ثَبِّتْ قُلُوْبُنَا عَلٰی دِیْنِکَ یا الفاظ یہ ہوتے تھے۔ یا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قُلُوْبُنَا عَلٰی دِیْنِکَ