قُلْ أَمَرَ رَبِّي بِالْقِسْطِ ۖ وَأَقِيمُوا وُجُوهَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَادْعُوهُ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ ۚ كَمَا بَدَأَكُمْ تَعُودُونَ
” فرمادیجیے کہ میرے رب نے انصاف کا حکم دیا ہے اور اپنے چہرے نماز کے وقت سیدھے رکھو اور اس کی خالص اطاعت کرتے ہوئے اس کو پکارو، جیسے اس نے تمہیں پیدا کیا اسی طرح تم دوبارہ پیدا ہوگے۔“ (٢٩)
اللہ تعالیٰ نے تو حکم عدل و انصاف کا دیا، استقامت، دیانتداری کا دیا، برائیوں اور گندے کاموں کوچھوڑنے کا دیا، عبادت کو اللہ کے سچے رسولوں کے طریقہ کے مطابق بجالانے کا حکم دیا جن کی سچائی اللہ تعالیٰ نے معجزوں سے ثابت کردی۔ ان کی لائی ہوئی شریعت پر اخلاص سے عمل کرو۔ جب تک اخلاص اور پیغمبر کی تابعداری پر عمل نہ ہو وہ عمل اللہ کے ہاں مقبول نہیں ہوتا۔ جبرائیل کا سوال کہ اخلاص کیا ہے: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تم اللہ کی عبادت ایسے کرو کہ وہ تمہیں دیکھ رہا ہے یا تُم اُسے دیکھ رہے ہو۔‘‘ (بخاری: ۵۰) پھر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جس طرح تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا ہے اسی طرح دوبارہ بھی پیدا کرے گا۔ تم کچھ نہ تھے اس نے تمہیں بنایا، اب مرنے کے بعد پھر وہ تمہیں زندہ کردے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’لوگو! تم اللہ کے سامنے ننگے پیروں، ننگے بدنوں، بے ختنہ جمع کیے جاؤ گے جیسے کہ ہم نے تمہیں پیدائش میں کیا تھا پھر اسی کو دہرائیں گے یہ ہمارا وعدہ ہے اور ہم اسے کرکے ہی رہنے والے ہیں۔‘‘ (بخاری: ۶۵۲۶، مسلم: ۲۸۶۰) خالصتاً اللہ کو پکارو سے مراد: جب بھی عبادت کے لیے مسجد میں جاؤ تو تمہاری توجہ صرف اللہ ہی کی طرف ہونا چاہیے، خالصتاً اسی کی عبادت کرو اسکے ساتھ دوسروں کو شریک نہ کرو، مشرک دوران طواف کعبہ اللہ کے ساتھ اپنے معبودوں کو بھی پکارتے اور ننگے ہوکر طواف کرتے تھے۔ یہ یاد رکھو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کی جزا و سزا دینے کا پورا اختیار رکھتا ہے۔ اور جس طرح تم دنیا میں اکیلے اکیلے آئے ہو اسی طرح حساب کتاب کے دن اکیلے اکیلے اللہ کے حضور پیش کیے جاؤ گے وہاں تمہارے اعمال کی با ز پُرس بھی ہوگی اور جزا و سزا بھی ملے گی۔