وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَقَفَّيْنَا مِن بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ ۖ وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ ۗ أَفَكُلَّمَا جَاءَكُمْ رَسُولٌ بِمَا لَا تَهْوَىٰ أَنفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ فَفَرِيقًا كَذَّبْتُمْ وَفَرِيقًا تَقْتُلُونَ
بلاشبہ ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی اور ان کے بعد مسلسل رسول بھیجے اور ہم نے عیسیٰ ابن مریم ( علیہ السلام) کو واضح دلائل دیے۔ اور روح القدس سے اس کی تائید فرمائی۔ جب تمہارے پاس رسول وہ چیز لائے جو تمہاری طبیعتوں کے خلاف تھی تو تم نے تکبر کیا پس ایک جماعت کو تم نے جھٹلا دیا اور دوسری جماعت کو تم نے قتل کر ڈالا
اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل میں ان کی اصلاح کے لیے پے درپے پیغمبر بھیجے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بہت سے معجزات دیے تھے۔ چنانچہ (۱) وہ مردوں کو زندہ کرتے تھے۔ (۲) مادر زاد کوڑھی کو ٹھیک کرتے تھے۔ (۳) مٹی کا پتلا بناکر اس میں اللہ کے حکم سے پھونک مارتے تو وہ زندہ ہوجاتا۔ (۴) وہ لوگوں کو یہ بھی بتادیتے کہ وہ کیا کچھ کھا کر آئے ہیں اور کیا گھر میں چھوڑ کر آئے ہیں اور ان سب کاموں میں روح القدس جبرائیل امین کی تائید آپ کے شامل حال رہتی تھی۔ انسان انکار کب اور کیوں کرتا ہے؟ جب انسان اپنے آپ کو دوسرے کے مقابلے میں بڑا سمجھتا ہے تو پھر وہ حق کا انکار بھی کردیتا ہے۔جب ابلیس نے تکبر کیا اور آدم کو سجدہ نہ کیا تو حق کا انکار کیا اللہ تعالیٰ نے واضح کردیا کہ جب انسان کی خواہش پر ضرب پڑتی ہے اور وہ نفس كو بڑاجبكہ اللہ کی راہنمائی کو چھوٹا سمجھتا ہے۔ پھر ایسے لوگ رسولوں کو ناحق قتل بھی کردیتے تھے اور ان کا انکار بھی کرتے تھے۔ نبوت سے پہلے چالیس سال تک لوگ آپ کو صادق اور امین کہتے تھے لیکن نبوت کے بعد لوگوں کے رویے بدل گئے اور انھیں بھی واپس اُسی دین پر بلانے کے لیے مجبور کرنے لگے۔ عام حالات میں لوگ تحقیق کرلیتے ہیں مگر دین کے معاملے میں تحقیق نہیں کی جاتی۔ قریش کے لوگ نبی پاک کو عبادت بھی نہیں کرنے دیتے تھے جب کچھ عرصہ کے لیے آپ پر وحی آنا رک گئی تو کہنے لگے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) تمہارے شیطان نے تمہیں چھوڑ دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ دعائیں سکھائی جن سے انسان اپنے اعمال اچھے کرسکتا ہے۔ مسنون دعا:(۱) اَللّٰہُمَّ رَحْمَتِكَ اَرْجُوْ فَلَا تَکِلْنِیْ اِلٰی نَفْسِیْ۔’’اے اللہ میں تیری رحمت کا امیدوار ہوں مجھے ایک لمحے کے لیے بھی اپنے نفس کے حوالے نہ کرنا۔‘‘ (۲)نبی كریم صلی اللہ علیہ وسلم كا ارشادہے: اَللّٰھُمَّ اِنِّی ظَلَمْتُ نَفْسِیْ ظُلْمًا كَثِیْرًا وَّلَا یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اَنْتَ۔’’اے اللہ! میں نے اپنے اوپر بے حد ظلم كیا ہے ، اور تیرے سوا گناہوں سے بخشنے والا كوئی نہیں۔‘‘ (بخاری: ۸۳۴) آپ نے چار چیزوں سے پناہ مانگی: (۱) اس دل سے جو نہ ڈرے ۔(۲) حریص دل سے جس میں قناعت نہ آئے۔ (۳)بے نفع علم سے ۔(۴) ایسی دعا سے جو سنی نہ جائے ۔