سورة الانعام - آیت 97

وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ النُّجُومَ لِتَهْتَدُوا بِهَا فِي ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ۗ قَدْ فَصَّلْنَا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اور وہی ہے جس نے تمہارے لیے ستارے بنائے تاکہ تم ان کے ساتھ خشکی اور سمندر کے اندھیروں میں راستہ معلوم کرو۔ بے شک ہم نے ان لوگوں کے لیے کھول کر آیات بیان کردی ہیں جو جانتے ہیں۔“ (٩٧)

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

سورج اور چاند کے علاوہ بھی اللہ نے ستارے پیدا فرمائے ہیں جو تاریک راتوں میں جب چاند بھی غائب ہوجاتا ہے تو ستارے کچھ نہ کچھ روشنی پہنچاتے رہتے ہیں۔ ستاروں کے ذریعے سے سفر کی سمت اور رات کا کتنا حصہ گزرچکا ہے معلوم ہوتا ہے کیونکہ یہ بھی ایک نظام میں بندھے ہوئے ہیں اور یہ فوائد خشکی اور سمندری سفر میں بھی حاصل ہوتے ہیں۔ ستاروں کی پیدائش اور انکی مقررہ چال اور ان سے فوائد کا حصول بھی اللہ تعالیٰ کی قدرت کی واضح نشانیاں ہیں۔ ستاروں کے دو مقصد اور بھی ہیں: (۱)آسمانوں کی زینت۔ (۲) شیطانوں کی سرزنش، یعنی شیطان آسمان پر جانے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ ان پر شعلہ بن کر گرتے ہیں ۔ ان تینوں باتوں کے علاوہ اگر کوئی شخص اور عقیدہ رکھتا ہے تو غلطی پر ہے اور اللہ پر جھوٹ باندھتا ہے مثلاً علم نجوم، جس میں ستاروں کے ذریعے سے مستقبل کے حالات یا انسانی زندگی یا کائنات میں ان کے اثرات کا جو دعویٰ کیا جاتا ہے وہ بے بنیاداور شریعت کے خلاف ہے۔ چنانچہ ایک حدیث میں اسے جادوہی کا ایک شعبہ (حصہ) بتلایا گیا ہے۔