سورة الانعام - آیت 94

وَلَقَدْ جِئْتُمُونَا فُرَادَىٰ كَمَا خَلَقْنَاكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَتَرَكْتُم مَّا خَوَّلْنَاكُمْ وَرَاءَ ظُهُورِكُمْ ۖ وَمَا نَرَىٰ مَعَكُمْ شُفَعَاءَكُمُ الَّذِينَ زَعَمْتُمْ أَنَّهُمْ فِيكُمْ شُرَكَاءُ ۚ لَقَد تَّقَطَّعَ بَيْنَكُمْ وَضَلَّ عَنكُم مَّا كُنتُمْ تَزْعُمُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور بے شک تم ہمارے پاس اکیلے اکیلے آگئے، جیسے ہم نے تمہیں پہلی بارپیدا کیا تھا اور جو کچھ ہم نے تمہیں دیا تھا اسے اپنی پیٹھوں کے پیچھے چھوڑ آئے اور ہم تمہارے ساتھ تمہارے وہ سفارش کرنے والے نہیں دیکھتے جنہیں تم نے گمان کیا تھا کہ وہ تمھارے درمیان وہ شریک ہیں۔ بلاشبہ تمہارا آپس کا رشتہ کٹ گیا اور جو کچھ تم گمان کیا کرتے تھے تم سے گم ہوگیا۔“ (٩٤)

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

شانِ نزول: ابن جریر کی روایت ہے نذر بن حارث نے کہا کہ لات اور عُزی ہماری سفارش کریں گے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ اکیلے اکیلے آئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے لیے فرمایا جنھوں نے اللہ تعالیٰ پر افتراباندھا تھا، کہ تم اکیلے اکیلے جیسے تمہیں پیدا کیا تھا واپس میرے پاس آگئے ہو، تمہارے ساتھ نہ مال ہے نہ اولاد، نہ وہ معبود جن کو تم نے اللہ کا شریک اور اپنا مددگار سمجھ رکھا تھا۔ موت کے ساتھ ہی سب رشتے کٹ جاتے ہیں۔ اور صرف انسان کے اپنے اعمال پر ہی آخری انجام کا دارومدار ہوگا۔ موت کے بعد ان ظالموں کو یہ یاد ہی نہ ہوگا کہ دنیا میں ان کے تعلقات کس کس سے تھے اور کس کس نوعیت کے تھے۔ حسن بصری نے فرمایا ’’اللہ پوچھے گا جو کچھ تمہیں دیا تھا اُس کا کیا کیا۔ کہے گا بڑھا چڑھا کر چھوڑ آیا۔ اللہ فرمائے گا یہاں تو کچھ بھی نہیں جو کچھ آگے بھیجا ہے وہ کہاں ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَادْعُوْا شُرَكَآءَكُمْ فَدَعَوْهُمْ فَلَمْ يَسْتَجِيْبُوْا لَهُمْ﴾ (القصص: ۶۴) ’’اپنے شریکوں کو بلاؤ اپنے شریکوں کو بلاؤ جب انھیں پکارا جائے گا وہ کوئی جواب نہیں دیں گے۔‘‘ اس آیت کو پڑھ کر مومن کا دل ایمان و یقین سے بھرجاتا ہے اور وہ اللہ کا دامن تھام لیتا ہے دعا مانگنی ہے قرب قربانی سے ملتا ہے۔