سورة الانعام - آیت 50

قُل لَّا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكٌ ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ ۚ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ ۚ أَفَلَا تَتَفَكَّرُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

کہہ دیجیے میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب جانتا ہوں اور نہ میں تم سے کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں میں تو صرف اس کے پیچھے چلتاہوں جو میری طرف وحی کی جاتی ہے فرمادیں کیا اندھا اور دیکھنے والابرابر ہوتے ہیں؟ تو کیا تم غور نہیں کرتے۔“ (٥٠)

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

جاہلوں کے مطالبات کے جواب: جاہل قسم کے لوگ انبیاء کو طرح طرح کے معجزے پیش کرنے کی فرمائش کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ان کے احمقانہ نظریات کی تردید کرتے ہوئے کہلوایا کہ (۱) نہ تو میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں کہ تمہیں تمہارے منہ مانگے معجزات دکھا سکوں اور تمہاری حاجات کو فوراً پورا کردیا کروں۔ (۲) نہ میں غیب ہی جانتا ہوں کہ تمہیں بتا سکوں کہ فلاں چورنے فلاں وقت چوری کی، یا اس وقت تم دل میں کیا سوچ رہے ہو۔ (۳) میں فرشتہ بھی نہیں ہوں کہ مجھے کھانے پینے چلنے پھرنے یا نکاح کی حاجت نہ ہو۔ میرے فرائض صرف یہ ہیں کہ ایمان لانے والوں کو خوشخبری سنا دوں اور انکار کرنے والوں کو ڈراؤں اور ہر حال میں اپنی ذمہ داری نبھانے کی کوشش کروں، میں تو صرف اس وحی کا پیروکار ہوں جو مجھ پر نازل ہوتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ! مجھے قرآن کے ساتھ اس کی مثل بھی دیا گیا۔‘‘ (ابو داؤد: ۴۶۰۶) یہ مثل حدیث رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم ہی ہے۔ ایک نبی اور عام آدمی میں فرق: نبی پر وحی نازل ہوتی ہے بعض اوقات اللہ تعالیٰ غیب کے پردے ہٹا کر نبی کو کسی چیز کے بارے میں بھی مطلع کرتا ہے۔ عام آدمی کو یہ چیزیں میسر نہیں۔ عام آدمی کے نظریات تو محض گمان کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ اب بتائیں کہ ایک بینا اور نابینا برابر ہوسکتے ہیں ۔ ایک راہ پانے والا دوسرا گمراہ۔ ایک عالم اور دوسرا جاہل کیا برابر ہوسکتے ہیں۔ ہدایت یافتہ مومن اور کافر برابر ہوسکتے ہیں۔