سورة المآئدہ - آیت 101

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِن تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ وَإِن تَسْأَلُوا عَنْهَا حِينَ يُنَزَّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَ لَكُمْ عَفَا اللَّهُ عَنْهَا ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ان چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرو جو تمہارے لیے ظاہر کردی جائیں تو تمہیں بری لگیں اور اگر تم ان کے بارے میں اس وقت سوال کروگے جب قرآن نازل کیا جارہا ہے تو تمہارے لیے ظاہر کردی جائیں گی۔ اللہ نے ان سے درگزر فرمایا اور اللہ خوب بخشنے والا، نہایت بردبار ہے۔ (١٠١)

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

تم سوال نہ کرو: رسول اللہ سے زائد سوال کرنے سے روکا گیا ہوسکتا ہے ایسے فرائض عائد ہوجائیں جن پر عمل کرنا ممکن نہ ہو۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا کیا ہر سال حج فرض ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں، اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہر سال واجب ہوجاتا۔ (مسند احمد: ۱/۲۱۱۳، ح: ۹۰۸، مسلم: ۱۳۳۷) خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی صحابہ کرام کو زیادہ سوالات کرنے سے منع فرماتے تھے۔ ایک حدیث میں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلمانوں میں سب سے بڑا وہ مجرم ہے جس کے سوال کرنے سے کوئی چیز حرام کردی گئی حالانکہ اس سے قبل وہ حلال تھی۔ (بخاری: ۷۲۸۹) اگر نزول قرآن کے وقت سوال کرو تو ظاہر کردی جائیں گی اور اللہ درگزر کرنے والا اور حلیم ہے۔