سورة النسآء - آیت 162

لَّٰكِنِ الرَّاسِخُونَ فِي الْعِلْمِ مِنْهُمْ وَالْمُؤْمِنُونَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنزِلَ مِن قَبْلِكَ ۚ وَالْمُقِيمِينَ الصَّلَاةَ ۚ وَالْمُؤْتُونَ الزَّكَاةَ وَالْمُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أُولَٰئِكَ سَنُؤْتِيهِمْ أَجْرًا عَظِيمًا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” لیکن ان میں سے وہ لوگ جو علم میں پختہ اور ایمان والے ہیں، وہ اس پر ایمان لاتے ہیں جو آپ کی طرف نازل کیا گیا اور جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا اور جو نماز ادا کرنے والے اور زکوٰۃ دینے والے ہیں۔ اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لانے والے ہیں۔ ان لوگوں کو ہم عنقریب بہت زیادہ اجر عطاکریں گے۔“ (١٦٢)

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

پختہ علم والے لوگوں کی نشانیاں: وحی کے متلاشی ہوں وہیں سے دلیل اور راہنمائی حاصل کریں۔ لکیر کے فقیر اور آباء کی تقلید کے پابند نہ ہوں۔ تمام آسمانی کتابوں پر ایمان رکھتے ہوں۔ نماز، زکوٰۃ، روزہ، حج اور آخرت پر ایمان رکھتے ہوں جیسے عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی تھے۔ علم کی پختگی سے کیا ملتا ہے: (۱) پختہ علم والے پورے دین پر ایمان لے آتے ہیں۔ (۲) پختہ علم عمل کی محبت دیتا ہے۔ (۳) انسان کی راہنمائی کرتا ہے۔ (۴) دل ایمان کے لیے کھل جاتا ہے۔ (۵) سچی اور صحیح معرفت ملتی ہے۔ (۶) خشیت پیدا ہوتی ہے۔ سطحی علم: نماز، روزہ، زکوٰۃ حج ادا کرلیا اب اور کیا کریں، حالانکہ دین اتنا نہیں ہے۔ جزو لے لیا، کل تک نہیں پہنچے، سب کرنے کے بعد سود بھی لے لیں گے، حرام کام کریں گے، مال اپنی مرضی سے خرچ کریں گے، اسلام پڑھتے ہیں تو اپنا ذہن لے کر اس لیے اس میں انسانی خیالات کی آمیزش ہوگئی اس طرح علم پختہ نہیں رہتا صحیح معرفت، اللہ کے رسولوں اس کی کتابوں سے ملتی ہے۔ تقدیر کی پہچان ملتی ہے، مقصد زندگی ملتا ہے موت کے بعد زندگی کے انجام کا پتہ چلتا ہے پھر ایمان مخالف سب باتیں تکلیف دیتی ہیں۔ اجر پانے والے لوگ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اہل کتاب میں سے جو شخص (خواہ یہودی ہو یا نصرانی) اسلام لائے گا اس کو دوہرا اجر ملے گا ایک اجر اپنے پیغمبر پر ایمان لانے کا دوسرا محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) پر ایمان لانے کا۔ (بخاری: ۹۷) اور فرمایا: ’’عالم کو عابد پر ایسے برتری ہے جیسے چاند کو چھوٹے ستاروں پر، عالم انبیاء کے وارث ہیں۔‘‘ (ترمذی: ۲۶۸۵، ابن ماجہ: ۲۲۳) اہل علم اللہ کے احکام کی پوری پابندی کرتے ہیں، حیلے بہانے، اعتراضات، مطالبات اور کٹ حجتی نہیں کرتے ایسے ہی لوگ اجرعظیم کے مستحق ہوتے ہیں۔