إِنَّ الَّذِينَ يَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ أَن يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللَّهِ وَرُسُلِهِ وَيَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَن يَتَّخِذُوا بَيْنَ ذَٰلِكَ سَبِيلًا
” بے شک جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں کا انکار کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان تفریق کریں اور کہتے ہیں ہم بعض کو مانتے ہیں اور بعض کو نہیں مانتے اور چاہتے ہیں کہ اسکے درمیان کوئی راستہ اختیار کریں۔
اہل کتاب کے متعلق پہلے گزرچکا ہے کہ وہ بعض نبیوں کو مانتے تھے اور بعض کو نہیں، اصل حقیقت اس کا وجود ہوتا ہے اللہ کا اقرار اور اللہ کے رسول کا اقرار اصل ہے اور اسلام لانے کے لیے اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لانا ضروری ہے، اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان تفریق کرنا درست نہیں اللہ تعالیٰ خالق ہے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس کی مخلوق ہیں، اللہ ہدایت دینے والا ہے اور رسول اس کو آگے پہنچانے والے ہیں، بعض پر ایمان لانا اور بعض کا انکار کرنا غلط ہے سارے رسول ایک عظیم امانت کے وارث ہیں وہ ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں اگرچہ ان کا دور الگ تھا مگر پیغام کے اعتبار وہ ایک ہی سلسلہ کی کڑی تھے رسولوں کے سلسلے میں کہیں اختلاف پیدا نہیں ہوا، ایک ہی بات سب نے کہی کہ انسان اللہ کی غلامی کے لیے پیدا ہوا، اور وہ اللہ سے ڈر کر زندگی گزارے، اللہ کے آگے انسان جواب دہ ہے، تبدیلی بیرونی دنیا میں آتی ہے اللہ کے پیغام میں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی مثلاً پیدل، سواری، پھر جہاز آگیا۔ اللہ نے انسان کو اپنی فطرت پر پیدا کیا ہے، اللہ کی فطرت بدلنے والی نہیں نہ طریقہ بدلنے والا ہے نہ اللہ کا پیغام ہی بدل سکتا ہے اور اللہ نے بعض رسولوں کو بعض پر فضیلت دی ہے اس لیے انسان کا اختیار نہیں کہ وہ ان میں فرق ڈالے۔ درمیانی راستہ: اللہ اور رسول اللہ پر ایمان لانے والے صحابہ کرام جیسا ایمان لائیں تو قابل قبول ہوگا اور اگر یہ طریقہ اختیار نہیں کرتے تو کھلی نافرمانی ہوگی، آج کے دور میں ہر فرد اسی بیماری میں مبتلا ہے کہ ہم وہ سب نہیں کرسکتے جو ان لوگوں نے کیا ہے، پھر اپنے آپ کو مسلمان بھی کہلواتے ہیں، جو اپنی مرضی اپنے نفس کے مطابق چلتا ہے وہ اللہ کا بندہ نہیں اور جو رب کی مرضی پر چلتا ہے وہ اللہ کا بندہ ہے۔