سورة النسآء - آیت 148

لَّا يُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَن ظُلِمَ ۚ وَكَانَ اللَّهُ سَمِيعًا عَلِيمًا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اللہ تعالیٰ بری بات کے اظہار کو پسند نہیں کرتا مگر جو مظلوم ہو اور اللہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والاہے۔ (١٤٨)

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ جب کسی سے محبت کرتے ہیں تو جبرائیل کو بلا کر کہتے ہیں میں فلاں سے محبت کرتا ہوں تم بھی اسے محبوب رکھو، پھر فرمایا: جبرائیل بھی اس سے محبت کرتے ہیں، یوں آسمان میں مُنادی کرادی جاتی ہے آسمان والے بھی اس سے محبت کرتے ہیں، پھر اس کی آسمان میں مقبولیت ہوجاتی ہے اور جس سے اللہ نفرت کرتا ہے کہ میں فلاں کو ناپسند کرتا ہوں، تم بھی اس سے نفرت کرو، آسمان میں منادی پر آسمان والے بھی اس سے نفرت کرتے ہیں، پھر زمین میں بھی اس کے لیے نفرت رکھ دی جاتی ہے۔(بخاری: ۳۲۰۹) مظلوم کس سے شکوہ کر سکتا ہے: مظلو م کو یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ اللہ کے حضور ظالم کے لیے بد دعا کرے، حاکم کے سامنے ظالم کا ظلم بیان کرے، یاد وسرے لوگوں سے تاکہ وہ ظالم کا ہاتھ روکیں یا کم از کم خود اس ظالم کے ظلم سے بچ جائیں۔ برائی کا چرچا نہ کرو: شریعت نے تاکید کی ہے کہ کسی کے اندر برائی دیکھو تو اس کا چرچا نہ کرو، بلکہ تنہائی میں اسے سمجھاؤ، الا یہ کہ کوئی دینی مصلحت ہو۔ کھلے عام اور علی الاعلان برائی کرنا سخت نا پسندیدہ ہے ایک تو برائی چاہے پردے میں کی جائے گناہ ہے۔ دوسرا اسے برسر عام کیا جائے یہ مزید ایک جرم ہے قرآن میں ان دونوں قسم کی برائیوں کے اظہار سے روکا گیا ہے البتہ ظالم کے ظلم کو تم لوگوں کے سامنے بیان کرسکتے ہو۔ اس سے ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ شاید وہ ظلم سے باز آجائے یا اس کی تلافی کی کوشش کرے، مظلوم کے علاوہ کسی کو یہ حق نہیں کہ کسی دوسرے کی بری بات لوگوں میں بیان کرتا پھرے۔ حدیث میں آتا ہے کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا، اور کہا کہ ’’میرا پڑوسی مجھے ایذا دیتا ہے آپ نے اس سے فرمایا ’’تم اپنا سامان نکال کر باہر راستے میں رکھدو‘‘ اس نے ایسا ہی کیا، چنانچہ جو بھی گزرتا اس سے پوچھتا، وہ پڑوسی کے ظالمانہ رویے کی وضاحت کرتا تو سن کر ہر رہ گزر اس پر لعنت ملامت کرتا، پڑوسی نے یہ صورت حال دیکھ کر معذرت کرلی۔ اور آئندہ کے لیے اذیت نہ دینے کا فیصلہ کرلیا، اور اس سے اپنا سامان اندر رکھنے کی التجا کی۔‘‘ (ابو داؤد: ۵۱۵۳) اللہ سب کچھ سننے والا اور جاننے والا ہے: اللہ نے اپنی صفات کا احساس دلایا ہے کہ جو کوئی بُری گفتگو کرے گا صرف وہی نہیں سنے گا، جو پکڑنے کا اختیار رکھتا ہے، وہ مظلوم کے شکوہ کو سننے والا ہے اور ظالم کے ظلم کو جانتا ہے، اس لیے بد گوئی کو چھوڑ دو اور اپنے آپ کو بُرے انجام سے بچالو۔