يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ شُهَدَاءَ لِلَّهِ وَلَوْ عَلَىٰ أَنفُسِكُمْ أَوِ الْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ ۚ إِن يَكُنْ غَنِيًّا أَوْ فَقِيرًا فَاللَّهُ أَوْلَىٰ بِهِمَا ۖ فَلَا تَتَّبِعُوا الْهَوَىٰ أَن تَعْدِلُوا ۚ وَإِن تَلْوُوا أَوْ تُعْرِضُوا فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا
اے ایمان والو ! اللہ ہی کے لیے عدل و انصاف پر مضبوطی کے ساتھ گواہی دینے والے ہوجاؤ۔ چاہے وہ تمہارے اپنے خلاف ہو یا اپنے ماں باپ کے یا رشتہ داروں، عزیزوں کے وہ امیر ہو یا غریب اللہ ان دونوں کا زیادہ خیر خواہ ہے۔ تم خواہش کے پیچھے پڑ کر انصاف نہ چھوڑو اور اگر تم نے غلط بیانی یا پہلو تہی کی تو جان لو جو کچھ تم کرو گے اللہ تعالیٰ اس سے پوری طرح باخبر ہے
اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کو جھنجھوڑا ہے کہ انصاف پر مبنی زندگی گزارو۔ ظلم مٹانے کی کوشش کرو۔ عدل کے لیے سہارا بن جاؤ، حق کی بنیاد پر ایک دوسرے کے ساتھ انصاف کرو۔ حقو ق میں سب برابر ہیں، رشتے دار، امیر، فقیر، غنی سب برابر ہیں، گواہی صرف اللہ کے لیے ہو کسی کے مفاد کے لیے نہ ہو۔ کسی مصلحت کے تحت نہ ہو، کسی کا لحاظ نہ رکھا جائے، صرف اللہ کی رضا کے لیے ہو اس میں تم، تمہارے والدین یا رشتہ دار بھی زد میں آتے ہوں تب بھی حق بات کی گواہی دو۔ اگر امیر ہو یا فقیر کسی تعلق کی وجہ سے یا ترس کھانے کی وجہ سے بھی گواہی نہیں دینی، کیونکہ اللہ ان کا زیادہ خیر خواہ ہے۔ اور خواہشات نفس کی بنیاد پر عدل و انصاف اور حق کا راستہ نہیں چھوڑنا۔ اگر بات بدلنے کا ارادہ کیا: تو یقینا جوتم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے۔ حق کو مسخ نہ کرنا، پہلو نہ بچانا۔ گواہی صرف عدالت تک محدود نہیں بلکہ دنیوی معاملات، خانہ داری، باہمی معاملات، لین دین، اپنے بیگانے، کافر اور مومن ہر ایک سے انصاف کرنے کا حکم ہے۔ یعنی اللہ سے ڈرتے ہوئے جو بات کرو انصاف کی کرو، خواہ اس میں تمہارا اپنا نقصان ہورہا ہو۔