سورة الضحى - آیت 6

أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيمًا فَآوَىٰ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

کیا اس نے آپ کو یتیم نہیں پایا اور پھر ٹھکانا دیا؟

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

مصنف ابن ابی شیبہ کی روایت میں ہے کہ: حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم وہ لوگ ہیں جن كے لیے اللہ تعالیٰ نے آخرت دنیا پر پسند كر لی۔ پھر آپ نے (وَلَسَوْفَ) كی تلاوت فرمائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم كی یتیمی كی حالت میں اللہ تعالیٰ نے آپ كا بچاؤ كیا، اور آپ كی حفاظت كی اور پرورش كی اور رہنے كو جگہ عنایت فرمائی۔ آپ كے والد كا انتقال تو آپ كی پیدائش سے پہلے ہی ہو چكا تھا چھ سال كی عمر میں والدہ صاحبہ كا بھی انتقال ہو گیا اب آپ دادا كی كفالت میں تھے لیكن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم آٹھ سال كے ہوئے تو دادا كا سایہ بھی سر سے اُٹھ گیا۔ اب آپ اپنے چچا ابو طالب كی پرورش میں آئے۔ ابو طالب دل و جان سے آپ كی نگرانی اور امداد میں رہتے، آپ كی پوری عزت و توقیر كرتے اور قوم كی مخالفت كے چڑھتے طوفان كو روكتے رہتے تھے، اور اپنے نفس كو بطور ڈھال پیش كر دیا كرتے تھے كیونكہ چالیس سال كی عمر میں آپ كو نبوت مل چكی تھی، اور قریش سخت تر مخالف بلكہ دشمنِ جان ہو گئے تھے۔ ابو طالب باوجود بت پرست اور مشرك ہونے كے آپ كا ساتھ دیتے تھے، اور مخالفین سے لڑتے جھگڑتے رہتے تھے۔ یہ تھی اللہ كی حسن تدبیر كہ آپ كی یتیمی كے ایام اس طرح گزرے اور مخالفین سے آپ كی خدمت اس طرح لی، یہاں تك كہ ہجرت سے كچھ پہلے ابو طالب بھی فوت ہو گئے۔ اب سفاك و جاہل قریش اُٹھ كھڑے ہوئے تو پروردگار عالم نے آپ كو مدینہ شریف كی طرف ہجرت كرنے كی رخصت عطا فرمائی، اور اوس و خزرج جیسی قوموں كو آپ كا انصار بنا دیا ان بزرگوں نے آپ كو اور آپ كے ساتھیوں كو جگہ دی، مدد كی، حفاظت كی اور مخالفین سے سینہ سپر ہو كر مردانہ وار لڑائیاں كیں، اللہ ان سب سے خوش رہے یہ سب كا سب اللہ كی حفاظت اور اس كی عنایت اور احسان و اكرام سے تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں كہ راہ بھولا پا كر صحیح راستہ دكھایا۔ سورہ شوریٰ ۵۲ میں ارشاد فرمایا ہے کہ: ﴿مَا كُنْتَ تَدْرِيْ مَا الْكِتٰبُ وَ لَا الْاِيْمَانُ﴾ اس طرح ہم نے اپنے حكم سے تمہاری طرف روح كی وحی كی، تم یہ بھی نہیں جانتے تھے كہ ایمان كیا ہے نہ كتاب كی خبر تھی۔ بلكہ ہم نے اسے نور بنا كر جسے چاہا ہدایت كر دی۔ غنی كر دیا: پھر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں تنگ دست پا كر ہم نے آپ كو غنی كر دیا، پس تو فقیری میں صابر اور غنا میں شاكر رہا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم كا بھی فرمان ہے كہ تونگری ساز و سامان كی كثرت كا نام نہیں ہے۔ اصل تونگری دل كی تونگری ہے۔ (بخاری: ۶۴۴۶، مسلم: ۱۰۵۱)