سورة الانشقاق - آیت 1

إِذَا السَّمَاءُ انشَقَّتْ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

جب آسمان اپنے رب کے حکم سے پھٹ جائے گا

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

زمین مردے اُگل دے گی؟: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے كہ قیامت كے دن آسمان پھٹ جائے وہ اپنے رب كے حكم پر كاربند ہونے كے لیے كان لگائے ہوگا۔ پھٹنے كا حكم پاتے ہی پھٹ پھٹ كر ٹكڑے ٹكڑے ہو جائے گا۔ واضح رہے كہ جن و انس كے سوا كائنات كی جملہ اشیاء اللہ تعالیٰ كے حكم كی تعمیل كے لیے ہمہ وقت تیار رہتی ہیں۔ انہیں یہ اختیار ہی نہیں دیا گیا كہ وہ حكم كی سرتابی كر سكیں لہٰذا جب آسمان كو پھٹ جانے كا حكم دیا جائے گا تو وہ بے خوف اور بے چوں و چرا پھٹ جائے گا۔ زمین پھیلا دی جائے گی؟: زمین پھیلا دی جائے گی، بچھا دی جائے گی اور كشادہ كر دی جائے گی، سارے سمندر خشك كر كے اس میں شامل كر دیے جائیں گی، پہاڑوں كو زمین بوس كر دیا جائے گا اس كی اونچی سب جگہیں برابر كر دی جائیں گی۔ اس طرح اس زمین كا رقبہ اتنا زیادہ ہو جائے گا كہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے كر قیامت تك پیدا ہونے والے انسانوں اور جنوں كی تمام نسلوں كو یكجا اكٹھا كر دیا جائے گا، یہ بھی ممكن ہے جیسا كہ دوسری آیت میں فرمایا: (يَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَيْرَ الْاَرْضِ) سے معلوم ہوتا ہے کہ حشر کے لیے ایک اور زمین کو پیدا کیا جائے۔ حدیث میں ہے: قیامت كے دن اللہ تعالیٰ زمین كو چمڑے كی طرح كھینچ لے گا یہاں تك كہ ہر انسان كو صرف دو قدم ٹكانے كی جگہ ملے گی، سب سے پہلے مجھے بلایا جائے گا، حضرت جبرائیل علیہ السلام خدائے تعالیٰ كے دائیں جانب ہوں گے، خدا كی قسم! اس سے پہلے اس نے كبھی اسے نہیں دیكھا، تو میں كہوں گا، خدایا پھر مجھے شفاعت كی اجازت ہو۔ چنانچہ مقام محمود پر كھڑا ہو كر میں شفاعت كروں گا اور كہوں گا كہ خدایا تیرے بندوں نے زمین كے گوشے گوشے پر تیری عبادت كی۔ (ابن جریر) زمین سب كچھ باہر پھینك دے گی: اللہ فرماتا ہے كہ زمین اپنے اندر كے كل مردے اُگل دے گی اور خالی ہو جائے گی یہ بھی تیرے رب كے فرمان كی منتظر ہوگی اور اسے بھی یہی لائق ہے كہ رب كا حكم مانے۔ انسان كشاں كشاں اپنے رب كی طرف جا رہا ہے: كَدْحًا كا لغوی معنی بہت محنت كرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے كہ اے انسان تو كوشش كرتا رہے گا یہ كوشش خیر كے كاموں كے لیے ہو یا شر كے کاموں کے لیے۔ بہرحال تو رب كی طرف بڑھتا رہے گا یہاں تك كہ ایك دن اس سے مل جائے گا اور اس كے سامنے كھڑا ہوگا، اور اے انسان! تو نے جو بھی اچھا یا برا عمل كیا ہوگا اسے اپنے سامنے پالے گا اور اسی كے مطابق تجھے اچھی یا بری سزا بھی ملے گی۔ (طیالسی، ح: ۲۴۲) سنن ابو داؤد میں مروی ہے كہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا: ’’اے محمد! جی لے جب تك چاہے بالآخر موت آنے والی ہے جس سے چاہے دل بستگی پیدا كرلے، ایك دن اس سے جدائی ہونی ہے، جو چاہے عمل كر لے ایك دن اس كی ملاقات ہونے والی ہے۔ وہ تجھے تیرے كل اعمال تیری تمام كوششوں وسعی كا پھل تجھے عطا فرمائے گا۔‘‘ قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں كہ اے ابن آدم تو كوشش كرنے والا ہے لیكن اپنی كوشش میں كمزور ہے جس سے یہ ہو سكے كہ اپنی تمام تر سعی و كوشش نیكیوں كی كرے تو وہ كر لے، دراصل نیكی كی قدرت اور برائیوں سے بچنے كی طاقت سوائے امداد خداوندی حاصل نہیں ہو سكتی۔