سورة التكوير - آیت 8

وَإِذَا الْمَوْءُودَةُ سُئِلَتْ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اور جب زندہ درگور کی ہوئی بچی سے پوچھا جائے گا

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

قیامت كے دن اللہ تعالیٰ زندہ درگور كی گئی لڑكی سے سوال كریں گے كہ تمہیں كس جرم كی پاداش میں زمین میں گاڑا گیا تھا اللہ تعالیٰ كا یہ انداز خطاب مجرموں پر انتہائی غضب ناك ہونے كی دلیل ہے۔ اہل عرب اتنے سنگدل كیوں تھے؟: لڑكیوں كو زندہ گاڑ دینے كی تین وجوہات تھیں۔ (۱) اہل عرب تنگدست اور مفلس ہو جانے كے ڈر سے اولاد كو مار ڈالتے تھے۔ اس اعتبار سے ان کے نزدیک بیٹوں اور بیٹیوں میں کوئی فرق نہ تھا۔ (۲) وہ كسی كو اپنا داماد بنانا باعث ننگ و عار سمجھتے تھے۔ (۳) اہل عرب ہر وقت جنگوں میں مشغول رہتے تھے۔ اب جنگوں میں نرینہ اولاد تو جانشین یا مددگار بنتی تھی۔ مگر لڑكی جس قبیلہ میں بیاہی جاتی، اسے انہیں اس كا ساتھ دینا پڑتا اور ان کے سامنے سرنگوں ہونا پڑتا تھا۔ اسی وجہ سے عربوں نے لڑكیوں كو وراثت سے بھی محروم كر ركھا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے لڑكیوں كو زندہ درگور كرنے كو قتل سے بھی زیادہ شدید گناہ قرار دیا ہے، اور لڑكیوں كی تربیت و پرورش كو نیك عمل قرار دیا ہے۔ چنانچہ ایک حدیث ہے: سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں كہ آپ نے فرمایا: جو شخص ان لڑكیوں كی پیدائش سے آزمائش میں ڈالا گیا۔ پھر وہ ان سے نیك سلوك كرے تو یہ لڑكیاں اس كے لیے جہنم كے عذاب سے بچاؤ كا ذریعہ بنیں گی۔‘‘ (ترمذی، ابواب البرو الصلة)