سورة النسآء - آیت 91

سَتَجِدُونَ آخَرِينَ يُرِيدُونَ أَن يَأْمَنُوكُمْ وَيَأْمَنُوا قَوْمَهُمْ كُلَّ مَا رُدُّوا إِلَى الْفِتْنَةِ أُرْكِسُوا فِيهَا ۚ فَإِن لَّمْ يَعْتَزِلُوكُمْ وَيُلْقُوا إِلَيْكُمُ السَّلَمَ وَيَكُفُّوا أَيْدِيَهُمْ فَخُذُوهُمْ وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ ۚ وَأُولَٰئِكُمْ جَعَلْنَا لَكُمْ عَلَيْهِمْ سُلْطَانًا مُّبِينًا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

تم لوگوں کو پاؤ گے جو چاہتے ہیں کہ تم سے بھی امن میں رہیں اور اپنی قوم سے بھی امن میں رہیں۔ جب کبھی فتنہ انگیزی کی طرف لوٹائے جاتے ہیں تو اس میں کود پڑتے ہیں اگر یہ لوگ تم سے کنارہ کشی نہ کریں اور تم سے صلح پر آمادہ نہ ہوں اور اپنے ہاتھ نہ روکیں تو انہیں پکڑو اور مار ڈالو جہاں کہیں بھی پاؤ۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے قتل پر ہم نے تمہیں واضح دلیل عنایت فرمائی ہے

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

بدترین منافق: یہ منافقین کے تیسرے گروہ کا ذکر ہے ۔ یہ مسلمانوں کے پاس آتے تو اسلام کا اظہار کرتے تاکہ مسلمانوں سے محفوظ رہیں۔ اپنی قوم کے پاس جاتے تو شرک و بت پرستی کرتے تاکہ وہ انھیں اپنا ہم مذہب سمجھیں اور یوں دونوں سے مفادات حاصل کرتے۔ لیکن جب داؤ لگ جائے تو اسلام دشمنی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھتے۔ان کی امن پسندی کی تین صورتیں ممکن ہیں۔ (۱) مسلمانوں سے صلح کرلیں۔ (۲) لشکر کفار میں شامل نہ ہوں۔ (۳) اور اگر انھیں مجبوراً کفار کے ساتھ شامل ہونا ہی پڑے تو پھر اپنے ہاتھ روکے رکھیں یعنی عملاً لڑائی میں شامل نہ ہوں۔ اور اگر یہ تینوں باتیں نہ پائی جائیں تو مطلب یہ ہو گا کہ ان کی نیتوں میں فتور ہے۔ اور وہ امن پسندی کی آڑ میں مسلمانوں کو دھوکا دے کر انتقام لینا چاہتے ہیں۔ لہٰذا جب بھی موقعہ ملے ایسے لوگوں کو گرفتار کرو اور قتل کرو۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی کھلی چھٹی دی ہے۔