إِلَّا مَنِ ارْتَضَىٰ مِن رَّسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا
سوائے اس رسول کے جسے اس نے غیب کا علم دینے کے لیے پسند کرلیا ہو۔ وہ اس کے آگے اور پیچھے محافظ لگا دیتا ہے
آگے پیچھے محافظ لگا دیتا ہے: یعنی نزول وحی كے وقت پیغمبر كے آگے پیچھے فرشتے ہوتے ہیں جو شیاطین اور جنات كو وحی كی باتیں سننے نہیں دیتے۔ دوسرا مطلب یہ كہ اللہ تعالیٰ كو علم ہو جائے كہ فرشتوں نے اپنے پیغامات ٹھیك ٹھیك پہنچا دئیے۔ اور تیسرا یہ كہ رسولوں نے اللہ كے پیغام لوگوں تك ٹھیك ٹھیك پہنچا دئیے۔ اور یہ بھی كہ اللہ اپنے پیغمبروں كی فرشتوں كے ذریعے سے حفاظت فرماتا ہے تاكہ وہ فریضۂ رسالت كی ادائیگی صحیح طریقے سے كر سكیں۔ اگرچہ اللہ تعالیٰ كو پہلے سے ہی ہر چیز كا علم ہے۔ لیكن ایسے موقعوں پر اللہ كے جاننے كا مطلب اس كے تحقّق كا عام مشاہدہ ہے۔ جیسا كہ سورئہ بقرہ (۲۵۵) میں ہے کہ: ﴿وَ لَا يُحِيْطُوْنَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِهٖ اِلَّا بِمَا شَآءَ﴾ ’’اس كے علم میں سے كسی چیز كو نہیں گھیر سكتے مگر جو اللہ چاہے۔‘‘ یعنی رسول خواہ انسانوں میں سے ہوں، خواہ فرشتوں میں سے ہوں اللہ جیسا اور جتنا چاہتا ہے بتلا دیتا ہے، بس وہ اتنا ہی جانتے ہیں۔