هَمَّازٍ مَّشَّاءٍ بِنَمِيمٍ
طعنے دیتا ہے، چغلیاں کھاتا پھرتا ہے۔
آیت نمبر ۱۰ سے ۱۳ تك چار آیات میں كافروں كے ایك رئیس كی اخلاقی حالت كو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے مقابلہ میں پیش كیا گیا ہے اور اس كا نام لینے كی ضرورت اس لیے پیش نہیں آئی كہ ان صفات والا كردار صرف ایك ہی تھا اور اس كی یہ صفات پڑھ كر ہر ایك كو معلوم ہو جاتا تھا كہ ان آیات كا روئے سخن كس کی طرف ہے اور یہ قرآن كی انتہائی حكمت كی دلیل ہے كہ كسی برے شخص كا نام لیے بغیر محض صفات سے ہی اس كی نشان دہی كر دی جائے اور ہر ایك كو معلوم ہو جائے كہ جس شخص میں یہ اور یہ صفات پائی جاتی ہوں وہ ایسے اخلاق كا مالك ہوتا ہے۔ طعنے دینا اور چغلیاں كھانا: غیبت كرنے والے، چغل خور، جو اِدھر كی اُدھر لگائے اور اُدھر كی اِدھر تاكہ فساد ہو جائے۔ طبیعتوں میں بل اور دل میں بیر آجائے۔ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كے راستے میں دو قبریں آگئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ان دونوں كو عذاب ہو رہا ہے اور كسی بڑے امر پر نہیں، ایك تو پیشاب كرنے میں چھینٹوں كا خیال نہیں ركھتا تھا، دوسرا چغل خور تھا۔ (بخاری: ۲۱۶، مسلم: ۲۹۲)