سورة البقرة - آیت 45

وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

صبر اور نماز کے ساتھ مدد طلب کرو۔ یہ بات عاجزی کرنے والوں کے سوا دوسروں کے لیے بہت مشکل ہے

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

صبر اور نماز دو بڑے ہتھیار ہیں۔ نماز کے ذریعے انسان کا تعلق اللہ سے جڑتا ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت حاصل ہوتی ہے اور صبر سے کردار کی پختگی اور دین میں استقامت حاصل ہوتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبر اور استقامت سے دین حق كی دعوت پر ڈٹے رہے، پھر ایک چھوٹی سی جماعت بنی جس نے دنیا کی تاریخ کا سب سے بڑا انقلاب برپا کردیا۔ ایك روایت میں آتا ہے كہ ’’ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کوئی اہم معاملہ پیش آتا آپ فوراً نماز کا اہتمام کرتے۔ (ابوداؤد: ۱۳۱۹) نماز: نماز کی پابندی عام لوگوں کے لیے گراں ہے۔ مگر جو مرنے کے بعد اللہ سے ملنے کا یقین رکھتے ہیں ان کے لیے تو نماز راحت و سکون کا باعث ہوتی ہے گویا قیامت پر یقین اعمال کو آسان کردیتا ہے اور آخرت سے بے فکری انسان کو بے عمل بلکہ بد عمل بنادیتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’صبر تو صدمہ كے آغازمیں ہی ہوتا ہے۔‘‘ ایک عورت قبر پر بیٹھی رورہی تھی آپ نے فرمایا اللہ سے ڈرو اور صبر کرو۔ وہ کہنے لگی جاؤ اپنا کام کرو تمہیں میرے جیسی مصیبت تو پیش نہیں آئی وہ عورت آپ کو پہچانتی نہ تھی۔ جب پتہ چلا تو وہ آپ کے پاس آئی اور کہا کہ میں صبر کرتی ہوں اس پر آپ نے فرمایا: صبر اس وقت کرنا چاہیے جب صدمہ شروع ہو۔‘‘ (بخاری: ۷۱۵۴)