سورة الطلاق - آیت 3

وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ ۚ وَمَن يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ ۚ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

اور اسے ایسے راستے سے رزق دے گا جہاں اس کا گمان بھی نہ ہوگا، جو اللہ پر بھروسہ کرے اس کے لیے وہ کافی ہے۔ اللہ اپنا کام پورا کر کے رہتا ہے اللہ نے ہر کام کے لیے ایک وقت مقرر کر رکھا ہے

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اس مقام پر رزق كا ذكر اس لیے كیا گیا كہ عدت کے دوران مطلقہ پر خرچ كرنے اور اسے بھلے طریقہ سے رخصت كرنے میں بخل سے كام نہ لے۔ بلكہ اس سے جتنا بہتر سلوك ہو سكتا ہے وہ كرے۔ اور اللہ سے ڈرتے ہوئے وہی كام كرنا چاہیے جو اس كا حكم ہو تنگدستی سے نہیں ڈرنا چاہیے كیونكہ اللہ كا وعدہ ہے كہ جو شخص اللہ پر بھروسہ كرتے ہوئے اور اس سے ڈر كر اسی كے حكم كے مطابق چلے گا تو اس كی تنگدستی دور كرنا اللہ كے ذمہ ہے، وہ اس كو ایسی جگہ سے رزق پہنچانے كا انتظام فرما دے گا جو پہلے اس كے وہم وگمان میں بھی نہ تھی۔ جو اللہ كا اللہ اس كا : اس لیے كہ ہر قسم كے ظاہری اور باطنی اسباب اللہ كے قبضہ قدرت ہیں جب كہ انسان كی نظر صرف چند ظاہری اسباب تك محدود ہوتی ہے۔ لہٰذا وہ اللہ سے ڈرنے والے كے لیے پریشانیوں سے نجات كی راہ بھی پیدا كر سكتا ہے۔ اور تنگ دستی كو دور كرنے كے اسباب بھی پیدا كر سكتا ہے۔ جیسے اللہ كی مشیئت نہ ہو تو مجرب دوائی بھی الٹا اثر دكھاتی ہے۔ یا ایك مضر دوائی سے بعض دفعہ ایك انسان صحت یاب ہو جاتا ہے۔ ایك اندازہ مقرر ہے: یعنی اگر كسی الجھنوں میں گرفتار شخص كو اللہ سے ڈرتے ہوئے كام كرتے ہوئے نجات كی راہ نہیں مل سكی یا كسی شخص نے اپنی حیثیت سے بڑھ كر اپنی مطلقہ بیوی سے فیاضانہ سلوك كیا مگر اس كی تنگدستی دور نہیں ہوئی تو اس سے اسے گھبرانا نہیں چاہیے۔ كیونكہ اس كے ہاں ہر چیز كا ایك اندازہ مقرر ہے۔ اسی كے مطابق وہ ظہور پذیر ہوتی ہے۔