لَّقَدْ صَدَقَ اللَّهُ رَسُولَهُ الرُّؤْيَا بِالْحَقِّ ۖ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِن شَاءَ اللَّهُ آمِنِينَ مُحَلِّقِينَ رُءُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ لَا تَخَافُونَ ۖ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوا فَجَعَلَ مِن دُونِ ذَٰلِكَ فَتْحًا قَرِيبًا
یقیناً اللہ نے اپنے رسول کو سچا خواب دکھایا تھا جو ٹھیک حق کے مطابق تھا کہ انشاء اللہ تم ضرور مسجد حرام میں امن کے ساتھ داخل ہوجاؤ گے، اپنے سر منڈواؤ گے اور بال کٹواؤ گے اور تمہیں کوئی خوف نہیں ہوگا، اللہ اس بات کو جانتا تھا جسے تم نہیں جانتے تھے اس لیے اس نے تم کو جلد ہی فتح عطا فرما دی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب دیکھا تھا کہ آپ مکہ گئے اور بیت اللہ شریف کا طواف کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا ذکر اپنے اصحاب رضی اللہ عنہ سے مدینہ شریف میں ہی کر دیا تھا۔ حدیبیہ والے سال جب آپ عمرے کے ارادے سے چلے تو اس خواب کی بنا پر صحابہ کو یقین کامل تھا کہ اسی سفر میں ہم کامیابی کے ساتھ اس خواب کا ظہور دیکھ لیں گے۔ وہاں جا کر جو رنگت بدلی ہوئی دیکھی یہاں تک کہ صلح نامہ لکھ کر بغیر زیارت بیت اللہ واپس ہونا پڑا تو ان صحابہ پر نہایت شاق گزرا۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تو خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ کہا کہ آپ نے تو خود ہم سے فرمایا تھا کہ ہم بیت اللہ جائیں گے طواف سے مشرف ہوں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ صحیح ہے۔ لیکن یہ تو میں نے نہیں کہا تھا کہ اسی سال ایسا ہو گا۔ (یعنی خواب میں وقت کی تعین نہیں کی گئی تھی) اور دوسرا جواب خود اللہ تعالیٰ نے دے دیا کہ پیغمبر کا خواب فی الواقع سچا تھا۔ اور ہم نے یہ دکھایا تھا وہ ضرور پورا ہو گا۔ تم یقیناً امن و امان کے ساتھ حرم میں داخل ہو کر عمرہ ادا کرو گے۔ تم سر منڈواؤ گے۔ اور بال کتراؤ گے۔ یہاں سے پہلے سر منڈوانے کا ذکر فرمایا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سر منڈوانابال کتروانے سے افضل ہے۔ چنانچہ اگلے سال مسلمانوں نے عمرہ قضا ادا کیا اور یہ سب باتیں پوری ہوئیں۔ اللہ تعالیٰ جانتا تھا: یعنی اگر حدیبیہ کے مقام پر صلح نہ ہوتی تو جنگ سے مکے میں مقیم کمزور مسلمانوں کو نقصان پہنچتا، صلح کے ان فوائد کو اللہ ہی جانتا تھا۔ نزدیک کی فتح: اس سے فتح خیبر و فتح مکہ کے علاوہ، صلح کے نتیجے میں جو بکثرت مسلمان ہوئے وہ بھی مراد ہے۔ کیوں کہ وہ بھی فتح کی ایک عظیم قسم ہے۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر مسلمان ڈیڑھ ہزار تھے۔ اس کے دو سال بعد جب مسلمان مکے میں فاتحانہ طور پر داخل ہوئے تو ان کی تعداد دس ہزار تھی۔