سورة محمد - آیت 22

فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِن تَوَلَّيْتُمْ أَن تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

پھر کیا تم سے اس کے سوا کوئی اور توقع کی جا سکتی ہے کہ اگر تم حکمران بن جاؤ تو زمین میں فساد برپا کرو گے اور آپس میں ایک دوسرے کے گلے کاٹو گے؟

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

منافقوں سے کسی بھلائی کی توقع نہیں: منافقوں کو جہاد صرف اس لیے گوارا نہ تھا کہ وہ اسلام کے مقابلہ میں اپنی جان ومال کو عزیز تر سمجھتے تھے۔ ایسے لوگوں سے اللہ فرماتا ہے کہ اگر نہیں دنیا میں حکومت مل بھی جائے تو ان سے کسی بھلائی کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ یہ اپنے مفادات کے لیے ملک میں فتنہ و فساد ہی برپا کریں گے اور یہ اپنے رشتہ داروں کے گلوں پر چھری پھیرنے سے بھی باز نہ آئیں گے۔ صلہ رحمی: حدیث میں ہے کہ ’’جب اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کو پیدا کر چکا تو رحم کھڑا ہوا اور رحمٰن سے چمٹ گیا اور کہنے لگا کہ یہ مقام ہے ٹوٹنے سے تیری پناہ میں آنے کا۔ اس پر اللہ عزوجل نے فرمایا کیا تو اس سے راضی نہیں کہ تیرے ملانے والے کو میں ملاؤں اور تیرے کاٹنے والے کو میں کاٹ دوں؟ اس نے کہا ہاں اس پر میں بہت خوش ہوں۔‘‘ (ترمذی: ۱۹۲۴، مسند احمد: ۲/ ۱۶۰) نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’اللہ عزوجل نے فرمایا میں رحمان ہوں اور رحم نام میں نے اپنے نام پر رکھا ہے۔ اسے جوڑنے والے کو میں جوڑوں گا اور اسے توڑنے والے کو میں توڑ دوں گا۔‘‘ (مسند احمد: ۱/ ۱۹۴)