سورة الدخان - آیت 38

وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا لَاعِبِينَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

آسمانوں و زمین اور کچھ ان کے درمیان ہے ہم نے انہیں شغل کے طور پر نہیں بنایا

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

کائنات بیکار پیدا نہیں کی گئی: یہ کفار کی اس کٹ حجتی کا عقلی جواب ہے۔ یعنی جو شخص آخرت کی جزا سزا کا منکر ہے وہ دراصل یہ سمجھتا ہے کہ یہ کارخانہ کائنات بس ایک کھیل تماشا ہی ہے۔ اور اس دنیا میں کوئی شخص جو چاہتا ہے وہ کرتا رہے۔ وہ مر کرمٹی ہو جائے گا اور اسے کوئی پوچھنے والا نہیں حالانکہ اس کائنات کی ایک ایک چیز میں باہمی ربط، نظم و نسق، باقاعدگی اور ہر چیز کا کثیر المقاصد ہونا اور اسی نسبت سے افادیت سے معمور ہونا اس بات کی کھلی شہادت ہے کہ اس کائنات کا خالق انتہا درجہ کی دانا اور مدبر ہستی ہی ہو سکتی ہے اور کوئی دانا بے کار اور عبث کام نہیں کیا کرتا۔ جیسا کہ سورہ مومنون (۱۱۵) میں ارشاد فرمایا کہ: ﴿اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰكُمْ عَبَثًا وَّ اَنَّكُمْ اِلَيْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ﴾ ’’کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ ہم نے تمہیں بے کار اور عبث پیدا کیا ہے۔ اور تم لوٹ کر ہماری طرف آنے کے ہی نہیں۔‘‘ لا محالہ یہ کائنات کسی نتیجہ پر منتج ہونی چاہیے اور اسی نتیجہ کا نام روز آخرت ہے لیکن اکثر لوگ یہ بات نہیں جانتے۔