فَأَزَلَّهُمَا الشَّيْطَانُ عَنْهَا فَأَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيهِ ۖ وَقُلْنَا اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۖ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَىٰ حِينٍ
لیکن شیطان نے ان کو پھسلا کر وہاں سے نکلوا دیا اور ہم نے فرمایا کہ اتر جاؤ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور ایک وقت مقرر تک تمہارے لیے زمین میں ٹھہرنا اور فائدہ اٹھانا ہے
اللہ تعالیٰ كے مقرر كیے ہوئے امر كے پورا ہونے کا وقت آگیا کہ انسان کو زمین میں بسایا جائے شیطان نے حضرت آدم کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے پر آمادہ كرنے كے لیے کیا کچھ نہ کیا ہوگا۔ وسوسے ڈالتا رہا اور حضرت آدم بچتے ہی رہے آخر ایک مدت گزرجانے کے بعد شیطان نے سبز باغ دکھاکر اپنے دامن میں پھانس ہی لیا۔ اور کہا کہ اللہ کی قسم میں تمہارا خیر خواہ ہوں اور جس درخت سے تمہیں روکا گیا ہے اسے کھاؤ گے تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جنت میں رہو گے اور اللہ کے مقرّب بن جاؤ گے۔ آدم علیہ السلام اس کے فریب میں آگئے درخت کے پھل کو کھایا تو فوراً جنتی لباس چھن گیا اور لگے پتوں سے اپنے بدن کو ڈھانپنے ۔ پھر فوراً ہی انھیں اپنی غلطی کا احساس ہوگیا۔ آج بھی یہی جنگ انسانی دل اور دماغ سے لڑی جارہی ہے ، انسان اپنی خواہشات كے جال میں پھنس جاتا ہے اور اس کا ارادہ کمزور پڑجاتا ہے ہر انسان ہمیشہ کی زندگی اور کمال کی نعمتیں چاہتاہے اور شیطان انسان کے اسی کمزور پہلو پر ضرب لگاتا ہے۔ حدیث:ابوہریرہ سے مروی ہے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم پر شیطان آتا ہے اور کہتا ہے فلاں چیز کس نے پیدا کی اور فلاں چیز کس نے پیدا کی آخر میں کہتا ہے تمہارے رب کو کس نے پیدا کیا؟ (مسند احمد: ۲/ ۳۳۱: ۸۳۵۸) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے كہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اعتكاف میں بیٹھے تھے كہ سیّدہ صفیہ رضی اللہ عنہا ملنے آئیں۔ آپ انھیں رخصت فرما رہے تھے كہ ایک آدمی آیا اور چلا گیا۔ آپ نے اُسے بلایا اور فرمایا: یہ میری بیوی ہے اُس شخص نے کہا: اے اللہ كے رسول میں نے کوئی گمان نہیں کیا ۔ آپ نے فرمایا کہ شیطان خون کی طرح رگوں میں دوڑتا ہے۔(مسلم: ۲۱۷۵)