فَإِنْ أَعْرَضُوا فَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ حَفِيظًا ۖ إِنْ عَلَيْكَ إِلَّا الْبَلَاغُ ۗ وَإِنَّا إِذَا أَذَقْنَا الْإِنسَانَ مِنَّا رَحْمَةً فَرِحَ بِهَا ۖ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ فَإِنَّ الْإِنسَانَ كَفُورٌ
اب بھی یہ لوگ منہ موڑتے ہیں تو اے نبی ہم نے تم کو ان پر نگران بنا کر نہیں بھیجا ہے آپ پر تو حق بات پہنچانے کی ذمہ داری ہے۔ انسان کو جب ہم اپنی رحمت کا مزا چکھاتے ہیں تو اس پر پھول جاتا ہے۔ اگر اس کے اپنے ہاتھوں کا کیا دھرا کسی مصیبت کی شکل میں اس پر الٹ پڑتا ہے تو وہ بہت ناشکرا بن جاتا ہے
آسانی میں شکر، تنگی میں صبر، مومنوں کی صفت ہے: سورہ بقرہ (۲۷۲) سورہ الرعد (۴۰) سورہ الغاشیہ (۲۱، ۲۲) وغیرہ میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری صرف اور صرف یہ ہے کہ اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچا دیں۔ لوگ مانیں نہ مانیں، آپ سے اس کی باز پُرس نہیں ہو گی۔ کیوں کہ ہدایت دینا آپ کے اختیار میں ہی نہیں ہے۔ یہ صرف اللہ کے اختیار میں ہے۔ راحت میں ہو تو بد مست ہو جاتا ہے: یعنی جب انسان کو وسائل رزق کی فراوانی، صحت و عافیت اور اولاد کی کثرت اور جاہ و منصب و غیرہ سب کچھ ملتا ہے تو اترانے لگتا ہے۔ اور کسی کو خاطر میں نہیں لاتا۔ اور جب برے دن آتے ہیں اور یہ برے دن بھی ان کی اپنی شامت اعمال سے آتے ہیں تو اس وقت وہ اپنے پروردگار کو کوسنے لگتا ہے اور اللہ کے ان سارے انعامات کو بھول جاتا ہے۔ جو اسے خوشحالی کے دور میں عطا کیے ہوتے تھے اس طرح نہ خوشحالی اس کی اصلاح میں مدد گار ثابت ہوتی ہے اور نہ بد حالی ہی اسے راہ راست پر لا سکتی ہے۔ کسی حال میں بھی ان کی طبیعت اللہ کی طرف رجوع کرنے پر آمادہ نہیں ہوتی۔ ایک حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے فرمایا: ’’صدقہ کرو۔ میں نے تمہیں زیادہ تعداد میں جہنم میں دیکھا ہے۔‘‘ کسی عورت نے پوچھا یہ کس وجہ سے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری شکایت کی زیادتی اور اپنے خاوندوں کی ناشکری کی وجہ سے۔ اگر تو ان میں سے کوئی تمہارے ساتھ ایک زمانے تک احسان کرتا رہے پھر ایک دن چھوڑ دے تو تم کہہ دو گی کہ میں نے تجھ سے کبھی کوئی راحت پائی ہی نہیں۔ (بخاری: ۳۵۴) لیکن اللہ کے نیک بندے اور کامل الایمان لوگوں کا حال ایسا نہیں ہوتا وہ تکلیفوں پر صبر کرتے ہیں اور نعمتوں پر شکر کرتے ہیں۔