وَالَّذِينَ إِذَا أَصَابَهُمُ الْبَغْيُ هُمْ يَنتَصِرُونَ
اور جب ان پر زیادتی کی جاتی ہے تو اس کا مقابلہ کرتے ہیں
یعنی بدلہ لینے سے وہ عاجز نہیں ہیں۔ اگر بدلہ لینا چاہیں تو لے سکتے ہیں۔ تاہم قدرت کے باوجود وہ معافی کو ترجیح دیتے ہیں۔ جیسے کہ اللہ کے نبی حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں پر قابو پا کر فرما دیا کہ جاؤ تمہیں میں کوئی ڈانٹ ڈپٹ نہیں کرتا بلکہ میری خواہش اور دعا ہے کہ اللہ بھی تمہیں معاف فرما دے، اور جیسے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ میں کیا جب کہ ’’اسی(۸۰) کفار غفلت کا موقع ڈھونڈ کر چپ چاپ لشکر اسلام میں گھس آئے جب یہ پکڑ لیے گئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب کو معافی دے دی۔ اس یہودیہ عورت کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ نہ کہا جس نے آپ کے کھانے میں زہر ملا دیا تھا جس کی تکلیف آپ دم واپسیں تک محسوس فرماتے رہے۔ اسی طرح لبید بن اعصم نے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا تو علم و قدرت کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے درگذر فرمایا۔ (بخاری: ۵۷۶۳، مسلم: ۲۱۸۹)