سورة الزمر - آیت 9

أَمَّنْ هُوَ قَانِتٌ آنَاءَ اللَّيْلِ سَاجِدًا وَقَائِمًا يَحْذَرُ الْآخِرَةَ وَيَرْجُو رَحْمَةَ رَبِّهِ ۗ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ ۗ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُو الْأَلْبَابِ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

کیا اس شخص کی روش بہتر ہے یا اس شخص کی جو مطیع فرمان ہے اور رات کو اپنے رب کے حضور کھڑا رہتا اور سجدے کرتا ہے آخرت سے ڈرتا اور اپنے رب کی رحمت پرامید لگائے ہوئے ہے ان سے پوچھو کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں برابر ہو سکتے ہیں، نصیحت تو عقل رکھنے والے ہی قبول کرتے ہیں

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

مشرک اور موحد برابر نہیں: مطلب یہ کہ ایک یہ کافر و مشرک ہے جس کا حال ابھی مذکور ہوا ہے اور دوسرا وہ شخص ہے جو تنگی اور خوشی میں، رات کی گھڑیاں اللہ کے سامنے عاجزی اور فرماں برداری کا اظہار کرتے ہوئے، سجود و قیام میں گزارتا ہے۔ آخرت کا خوف بھی اس کے دل میں ہے۔ اور رب کی رحمت کا امید وار بھی ہے۔ یعنی خوف و رجا دونوں کیفیتوں سے سرشار ہے۔ جو اصل ایمان ہے۔ کیا یہ دونوں برابر ہو سکتے ہیں؟ نہیں یقیناً نہیں خوف ورجا کے بارے میں ایک حدیث میں آتا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک شخص کے پاس گئے جب کہ اس پر سکرات الموت کی کیفیت طاری تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا تو اپنے آپ کو کیسے پاتا ہے‘‘ اس نے کہا: ’’ میں اللہ سے امید رکھتا ہوں اور اپنے گناہوں کی وجہ سے ڈرتا بھی ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اس موقع پر جس بندے کے دل میں یہ دونوں باتیں جمع ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ اسے وہ چیز عطا فرما دیتا ہے جس کی وہ امید رکھتا ہے اور اس سے اسے بچا لیتا ہے جس سے وہ ڈرتا ہے۔‘‘ (ترمذی: ۹۸۳، ابن ماجہ: ۴۲۶۱) جاننے والے اور نہ جاننے والے: یعنی وہ جو جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ثواب و عقاب کا جو وعدہ کیا ہے وہ حق ہے۔ اور وہ جو اس بات کو نہیں جانتے یہ دونوں برابر نہیں، ایک عالم ہے اور ایک جاہل جس طرح علم و جہل میں فرق ہے اسی طرح عالم اور جاہل برابر نہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ عالم اور غیر عالم کی مثال سے یہ سمجھانا مقصود ہو کہ جس طرح یہ دونوں برابر نہیں۔ اللہ کا فرماں بردار اور اس کا نافرمان بھی برابر نہیں۔ بعض نے اس سے یہ مطلب لیا ہے کہ عالم سے مراد وہ شخص ہے جو علم کے مطابق عمل بھی کرتا ہو۔ کیوں کہ وہی علم سے فائدہ حاصل کرنے والا ہے۔ اور جو عمل نہیں کرتا وہ گویا ایسا ہی ہے کہ اسے علم ہی نہیں۔ اس لحاظ سے عامل یا غیر عامل کی مثال ہے کہ یہ دونوں برابر نہیں۔ حدیث میں ہے کہ جس نے ایک رات میں سو آیتیں پڑھ لیں، اس کے نامہ اعمال میں ساری رات کی قنوت لکھی جاتی ہیں۔ (مسند احمد: ۴/۱۰۳) پس ایسے لوگ اور مشرک جو اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہراتے ہیں کسی طرح ایک مرتبے کے نہیں ہو سکتے۔ عالم اور بے علم کا درجہ ایک نہیں ہو سکتا۔ ہر عقل مند پر ان کا فرق ظاہر ہے۔