قُلْ إِن ضَلَلْتُ فَإِنَّمَا أَضِلُّ عَلَىٰ نَفْسِي ۖ وَإِنِ اهْتَدَيْتُ فَبِمَا يُوحِي إِلَيَّ رَبِّي ۚ إِنَّهُ سَمِيعٌ قَرِيبٌ
کہیں کہ اگر میں گمراہ ہوگیا ہوں تو میری گمراہی کا وبال مجھ پر ہے اور اگر میں ہدایت پر ہوں تو اس وحی کی بناء پر ہوں جو میرا رب مجھ پر نازل فرماتا ہے وہ سننے والا ہے اور قریب تر ہے
یعنی بھلائی سب اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ تعالیٰ نے جو وحی اور حق مبین نازل فرمایا ہے اس میں رشد و ہدایت ہے۔ صحیح راستہ لوگوں کو اسی سے ملتا ہے۔ پس جو گمراہ ہوتا ہے تو اس میں انسان کی اپنی ہی کوتا ہی اور ہوائے نفس کا دخل ہوتا ہے۔ اسی لیے اس کا وبال بھی اسی پر ہو گا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جب کسی سائل کے جواب میں اپنی طرف سے کچھ فرماتے تو ساتھ کہتے ’’ اسے میں اپنی رائے سے بیان کرتا ہوں اگر صحیح ہے تو اللہ کی طرف سے ہے۔ اور اگر غلط ہے تو میری اور شیطان کی طرف سے ہے۔ اور اللہ اورا س کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بری ہے۔‘‘ (ابوداؤد: ۲۱۱۶، مستدرک حاکم: ۲/ ۱۸۰) اللہ اپنے بندوں کی باتوں کا سننے والا ہے اور پکارنے والے کی ہر پکار کو ہر وقت سنتا اور قبول فرماتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم سے فرمایا تم کسی بہرے یا غائب کو نہیں پکار رہے جسے تم پکار رہے ہو وہ سمیع و قریب و مجیب ہے۔ (بخاری: ۲۹۹۲)