تُرْجِي مَن تَشَاءُ مِنْهُنَّ وَتُؤْوِي إِلَيْكَ مَن تَشَاءُ ۖ وَمَنِ ابْتَغَيْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكَ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن تَقَرَّ أَعْيُنُهُنَّ وَلَا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِمَا آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَّ ۚ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا فِي قُلُوبِكُمْ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَلِيمًا
آپ کو اختیار دیا جاتا ہے کہ اپنی بیویوں میں سے جسے چاہیں اپنے آپ سے الگ کردیں جسے چاہیں اپنے پاس رکھیں اور جسے چاہیں الگ رکھنے کے بعد اپنے پاس بلائیں۔ اس معاملہ میں آپ پر کوئی گناہ نہیں ہے، ہوسکتا ہے اس طرح ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور وہ رنجیدہ خاطر نہ ہوں اور جو کچھ بھی تو ان کو دے گا اس پر وہ راضی رہیں گی اللہ جانتا ہے جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے۔ اور اللہ سب کچھ جاننے والا اور حوصلے والا ہے
بیویوں کی باری کے سلسلے میں آپ کو خصوصی رعایت: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیویوں کے درمیان باریاں مقرر کرنے میں اختیار دے دیا گیا تھا۔ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس کی باری چاہیں موقوف کر دیں، یعنی اسے نکاح میں رکھتے ہوئے اس سے مباشرت نہ کریں اور جس سے چاہیں یہ تعلق قائم رکھیں۔ جسے چاہیں اپنے پاس بلالیں۔ یعنی جن بیویوں کی باریاں موقوف کر رکھی تھیں اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہیں تو ان سے بھی مباشرت کا تعلق قائم کیا جائے تو یہ اجازت بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے۔ وہ خوش رہیں گی: یعنی باری موقوف ہونے اور ایک کو دوسری پر ترجیح دینے کے باوجود وہ خوش ہوں گی اور جتنا کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے انھیں مل جائے گا اسی پر مطمئن رہیں گی کیوں؟ اس لیے کہ انہیں معلوم ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم یہ سب کچھ اللہ کے حکم اور اجازت سے کر رہے ہیں۔ اور یہ ازواج مطہرات اللہ کے فیصلے سے راضی اور مطمئن ہیں۔ اختیار کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے استعمال نہیں کیا: سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک بیوی کی باری کے دن دوسری بیوی کے ہاں جانا منظور ہوتا تو آپ باری والی بیوی سے اجازت لیا کرتے تھے معاذہ(راوی) کہتے ہیں کہ اس آیت کے اترنے کے بعد میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا: ’’ اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آپ سے اجازت لیتے تو آپ کیا کہتیں؟‘‘ تو انھوں نے جواب دیا کہ ’’ میں تو کہتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے پوچھتے ہیں تو میں تو یہ چاہتی ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس ہی رہیں۔ (بخاری: ۴۷۸۹، حوالہ ایضاً، تیسیر القرآن) سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا نے جو بہت بوڑھی ہو گئیں تھیں۔ اپنا دن رات سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو بخش دیا تھا۔ ان کی غرض یہ تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوں۔ (بخاری: ۲۵۹۳) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری سخت ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری بیویوں سے بیماری میں میرے گھر میں رہنے کی اجازت چاہی تو انھوں نے اجازت دے دی۔ (بخاری: ۲۵۸۸) مسند احمد میں ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے طور پر صحیح تقسیم اور پورے عدل کے بعد اللہ سے عرض کیا کرتے تھے کہ الہ العالمین جہاں تک میرے بس میں تھا میں نے انصاف کر دیا۔ اب جو میرے بس میں نہیں، اس پر تو مجھے ملامت نہ کرنا۔ (احمد: ۶/ ۱۴۴، ابو داؤد: ۲۱۳۴) یعنی دل کے رجوع کرنے کا اختیار مجھے نہیں، اللہ سینوں کی باتوں کا عالم ہے، لیکن حلم و کرم والا ہے۔ چشم پوشی کرتا ہے معاف کرتا ہے۔ (ابن کثیر)