يُدَبِّرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ أَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ
وہ آسمان سے زمین تک سب معاملات کی تدبیر کرتا ہے اور اس تدبیر کا نتیجہ اس کے حضور پیش کیا جاتا ہے ایسے دن میں جس کی مقدار تمہاری گنتی کے مطابق ایک ہزار سال ہے
اللہ تعالیٰ ہزار سالہ پروگرام ’’مدبرات‘‘ کے حوالے کر دیتا ہے: جس میں کسی قوم پر عذاب بھی شامل ہے اللہ تعالیٰ کے تخلیقی کارناموں کی صورت یہ ہوتی ہے کہ وہ ایک کام کا ارادہ یا سکیم بناتا ہے تو تدبیر امور پر مامور فرشتوں کو اس کی خبر دیتا ہے جو اللہ کے حکم کے مطابق نیچے اترتے ہیں۔ تمام اسباب ظاہر و باطنی خواہ زمین سے متعلق ہوں یا آسمان سے سب کے سب خود بخود جمع ہو کر اس کام کی تکمیل کے انصرام (انتظام) میں لگ جاتے ہیں اور ایک دن میں جب یہ کام پایہ تکمیل کو پہنچ جاتا ہے تو فرشتے اللہ کے حضور پیش ہو کر اس کی رو داد پیش کر دیتے ہیں اور یہ ایک دن اہل دنیا کے حساب کے مطابق ایک ہزار سال کی مدت ہوتی ہے۔ گویا فرشتوں کو ایک ہزار سالہ پروگرام اللہ تعالیٰ دے دیتے ہیں جب یہ کام انجام پا چکتا ہے تو پھر اگلا ایک ہزار سالہ پروگرام مدبرات امر فرشتوں کے حوالہ کر دیا جاتا ہے۔ یہ آیت دراصل مشرکین کے اس اعتراض کے جواب میں ہے جو اس بات پر مصر تھے اور نبیوں سے کہتے رہتے تھے کہ جس عذاب کی تم دھمکی دیتے ہو وہ آ کیوں نہیں جاتا؟ یا تم اسے ابھی ہم پر لے کیوں نہیں آتے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس ہزار سالہ پروگرام میں کسی قوم پر عذاب آنے کا پروگرام بھی شامل ہوتا ہے اور وہ اپنے پروگرام کے مطابق اپنے وقت مقررہ پر ہی آتا ہے۔ اس میں تقدیم و تاخیر نہیں ہوتی اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ جو عذاب کسی قوم کے مقدر ہو چکا ہے وہ اس پر نہ آئے۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے سارے کام سوچے سمجھے پروگرام کے مطابق بروئے کار لاتا ہے۔ تمہارے جلدی مچانے کا کچھ فائدہ یا اثر نہیں ہو گا۔ (تیسیر القرآن)