سورة آل عمران - آیت 44

ذَٰلِكَ مِنْ أَنبَاءِ الْغَيْبِ نُوحِيهِ إِلَيْكَ ۚ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يُلْقُونَ أَقْلَامَهُمْ أَيُّهُمْ يَكْفُلُ مَرْيَمَ وَمَا كُنتَ لَدَيْهِمْ إِذْ يَخْتَصِمُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

یہ غیب کی خبریں ہیں جسے ہم آپ کی طرف وحی کرتے ہیں۔ (اے نبی!) جب وہ اپنے قلم ڈال رہے تھے کہ مریم کی کفالت کون کرے گا؟ آپ ان کے پاس نہیں تھے اور نہ ہی ان کے جھگڑے کے وقت آپ ان کے پاس تھے

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

اس آیت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انبیاء کو غیب کا علم نہیں ہوتا۔ اور صدیوں پہلے گزرے ہوئے واقعات کو ٹھیک طور پر اپنے مخالفوں کو بتادینا آپ کا معجزہ اور آپ كی نبوت پر واضح دلیل ہے۔ کیونکہ آپ نے نہ تورات پڑھی تھی اور نہ انجیل اور نہ کوئی اور کتاب۔ اور آپ اس وقت وہاں موجود نہ تھے جب لوگ قرعہ اندازی کے لیے قلم ڈال رہے تھے۔ قرعہ اندازی کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ حضرت مریم کی کفالت کے اور بھی کئی لوگ خواہش مند تھے۔ سب نے اپنے استحقاق کے بارے میں دلائل دیے۔ حضرت زکریا نے بھی اپنا یہ استحقاق بتایا کہ چونکہ وہ سیّدہ مریم کے حقیقی خالو ہیں اس لیے وہی زیادہ حقدار ہیں۔ لیکن کسی نے آپ کا یہ استحقاق نہ مانا۔ بالآخر یہ طے ہوا کہ سب اپنی اپنی قلمیں جن سے وہ تورات لکھا کرتے تھے کسی بہتی ندی میں پھینک دیں اگر کسی کا قلم بہتی ندی کے بہا ؤ کی طرف بہنے سے رک جائے یا اپنی جگہ رہے تو وہی شخص سیدہ مریم کی سرپرستی کا حقدار ہوگا۔ تو ماسوائے سیدنا زکریا کے قلم کے باقی سب قلمیں پانی کے بہا ؤ کے رخ بہ نکلیں۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ معجزے دکھانے پر قادر ہے۔ کفالت کے لیے کس چیز نے مجبور کیا: ایک بچی کی کفالت دراصل رب کو راضی کرنے کی تمنا تھی جب دین کا معاملہ ہوتا ہے تو اللہ والے اپنے آپ کو وقف کردیتے ہیں یہ اتنی شدید خواہش تھی کہ سوائے قرعہ اندازی کے کوئی حل موجود نہ تھا۔اس واقعہ سے قرعہ ڈالنے كا شرعی جواز بھی معلوم ہو گیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے كہ ’’رسول اللہ جب سفر پرجانے لگتے تو قرعہ ڈالتے جس بیوی کا نام قرعہ میں نکلتا اُسے ساتھ لے جاتے۔ ‘‘ (بخاری: ۴۷۵۰)