وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أَنَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۖ كُلَّمَا رُزِقُوا مِنْهَا مِن ثَمَرَةٍ رِّزْقًا ۙ قَالُوا هَٰذَا الَّذِي رُزِقْنَا مِن قَبْلُ ۖ وَأُتُوا بِهِ مُتَشَابِهًا ۖ وَلَهُمْ فِيهَا أَزْوَاجٌ مُّطَهَّرَةٌ ۖ وَهُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
اور ایمان لانے اور صالح اعمال کرنے والوں کو خوش خبری دیجیے کہ ان کے لیے باغات ہیں جن کے نیچے نہریں چلتی ہیں۔ جب وہ پھلوں سے رزق دیے جائیں گے تو وہ کہیں گے یہ وہی ہیں جو ہم اس سے پہلے دیے گئے تھے اور انہیں اس سے ملتے جلتے پھل دیے جائیں گے اور ان کے لیے پاک بیویاں ہوں گی اور وہ ان باغات میں ہمیشہ رہیں گے
قرآن پاک میں جہاں کہیں کفار اور انکی وعید کا ذکر آتا ہے وہاں ساتھ ہی مومنوں اور انکی جزا کا ذکر بھی کردیا جاتا ہے ۔ کیونکہ انسان کی ہدایت کے لیے ترغیب اور ترہیب دونوں باتیں ضروری ہیں جنھوں نے اللہ کی ہدایت کو مان کر اپنی زندگی اس طریقے سے گزاری ۔ فطرت کے مطابق پاک صاف اعمال کیے ان کے لیے خوشخبری ہے اس جنت کی جس کے نیچے نہریں بہتی ہونگی۔ دنیا میں تو دریا سوکھ جاتے ہیں مگر جنتوں کا پانی ہمیشہ رہنے والا ہے۔ شیطان بہکاتا ہے: جہنم کا تذکرہ ہوتو شیطان یہ کہتا ہے کہ اللہ غفور الرحیم ہے اور جنت کا تذکرہ ہو تو یہ كہہ كر دھوكا دیتا ہے کہ تم اس قابل ہو منزل پانے کے لیے اس کی سمت چلنا پڑتا ہے جیسے حضرت آسیہ فرعون کے گھر میں رہتے ہوئے جنت کے لیے مضطرب رہتی تھیں۔ جنت میں اعمال سے گھر بنتے ہیں۔ جنت میں رزق: جنت میں جب کھانے کو پھل ملیں گے تو انسان شكر ادا كرتے ہوئے یہ کہیں گے کہ دنیا میں بھی ہم پر اللہ نے کرم کیا اور ایسے ہی پھل ہمیں کھانے کو دیے ۔ جنت کے پھل ہم شکل ہوں گے مگر ذائقے اور مزے میں بہت مختلف ہوں گے ۔ بخاری تفسیر ’’ سورة السجدہ‘‘ میں ہے۔ کہ کسی آنکھ نے انھیں دیکھا نہ کسی کان نے ان کی بابت سنا۔ دیکھنا سننا تو کجا کسی انسان کے دل میں ان کا گمان بھی نہیں گزرا۔ ‘‘ (بخاری: ۳۲۴۴۔ مسلم: ۲۸۲۴) ازواج مطہرہ: دونوں کے لیے پاک جوڑے ہوں گے یعنی حیض و نفاس اور دیگر آلائشوں سے پاک ہونگے اور وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔