سورة الشعراء - آیت 75

قَالَ أَفَرَأَيْتُم مَّا كُنتُمْ تَعْبُدُونَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اس پر ابراہیم نے کہا کبھی تم نے ان چیزوں پر غور کیا ہے کہ جن کی بندگی۔ (٧٥)

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی بتوں سے دشمنی: سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے یہ نہیں فرمایا کہ یہ بت تمہارے دشمن ہیں بلکہ یوں فرمایا کہ یہ میرے دشمن ہیں تاکہ قوم کے لوگ چڑ کر ضد بازی پر نہ اتر آئیں پھر آپ خلیل اللہ علیہ السلام اپنے رب کی صفتیں بیان فرماتے ہیں کہ میں تو رب کے سوا کسی کی عبادت نہ کروں گا پہلی صفت کہ وہ میرا خالق ہے۔ اسی نے اندازہ مقرر کیا ہے اور وہی مخلوقات کی اس طرف راہبری کرتا ہے۔ دوسرا وصف کہ وہ ہادیٔ حقیقی ہے۔ جسے چاہے اپنی راہ مستقیم پر چلاتا ہے۔ جسے چاہتا ہے اسے غلط راہ پر لگا دیتا ہے۔ تیسرا وصف کہ وہ رازق ہے آسمان و زمین کے تمام اسباب اسی نے مہیا کئے ہیں۔ بادلوں کا اٹھانا۔ پھیلانا۔ ان سے بارش برسانا، اس سے زمین کو زندہ کرنا پھر پیداوار کا اُگانا اسی کا کام ہے۔ وہی میٹھا اور پیاس بجھانے والا پانی ہمیں دیتا ہے۔ غرض کھلانے پلانے والا وہی ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے بیماری کی نسبت اللہ تعالیٰ کی بجائے اپنی طرف فرمائی تو یہ محض اللہ تعالیٰ کی تعظیم اور اپنی کسر نفسی کی بنا پر ایسا کہا۔ ورنہ بیماری اور شفا سب کچھ اللہ ہی کی طرف سے ہوتا ہے۔ دوا میں تاثیر پیدا کرنا بھی اسی کے بس میں ہے۔ موت و حیات پر قادر بھی وہی ہے۔ ابتدا، انتہا سب اسی کے ہاتھ میں ہے۔ اسی نے پہلی پیدائش کی ہے وہی دوبارہ لوٹائے گا۔ دنیا اور آخرت میں گناہوں کی بخشش پر بھی وہی قادر ہے۔ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ وہ غفور ورحیم ہے۔ پھر اللہ کی عبادت میں آخر دوسروں کو کیوں شریک بنایا جاسکتا ہے۔ (ابن کثیر) قیامت کے دن اللہ تعالیٰ جب عدالت قائم فرمائے گا تو اس وقت بھی اس کی عدالت، حاکمیت اور فیصلوں میں کسی دوسری ہستی کا کوئی عمل دخل نہ ہوگا۔ جس طرح مذکورہ بالا امور میں کسی کا کوئی عمل دخل نہیں ہے اور چونکہ میں نے اللہ کی عبادت میں دوسرے کسی کو اس کا شریک نہیں سمجھا۔ لہٰذا مجھے توقع ہے کہ اللہ تعالیٰ اس دن میری چھوٹی موٹی خطاؤں اور لغزشوں کو معاف فرما دے گا۔ (تیسیر القرآن)