سورة الشعراء - آیت 69

وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ إِبْرَاهِيمَ

ترجمہ فہم القرآن - میاں محمد جمیل

” اور انہیں ابراہیم کے حالات سناؤ۔ (٦٩)

تسہیل البیان فی تفسیر القرآن - ام عمران شکیلہ بنت میاں فضل حسین

سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا خانگی ماحول اور باپ کو نصیحت: سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی قوم بھی سرتاپا شرک میں مبتلا تھی۔ آپ کا باپ آزر نمرود کے دربار میں شاہی مہنت تھا۔ وہ بت فروش بھی تھا اور بت تراش بھی۔ ایسے ماحول اور ایسے باپ کے گھر سیدنا ابراہیم علیہ السلام پیدا ہوئے۔ آپ موحد تھے۔ اللہ تعالیٰ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے فرما رہا ہے کہ آپ اپنی اُمت کو یہ واقعہ سنا دیں تاکہ وہ اخلاص، توکل اور الٰہ واحد کی عبادت اور شرک اور مشرکین سے بیزاری میں آپ کی اقتدا کریں۔ آپ اول دن سے اللہ کی توحید پر قائم تھے اور آخر دن تک اسی توحید پر جمے رہے۔ آپ نے اپنی قوم اور اپنے باپ سے فرمایا کہ یہ بت پرستی کیا کر رہے ہو؟ انھوں نے جواب دیا کہ ہم تو پرانے وقت سے ان بتوں کی عبادت اور مجاوری کرتے چلے آتے ہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان کی اس غلط روش کو بے نقاب کرنے کے لئے فرمایا، کہ تم جوان سے دعائیں کرتے ہو اور دور نزدیک سے انھیں پکارتے ہو تو کیا یہ تمہاری پکار سنتے ہیں۔ یا جس نفع کے لئے تم انھیں پکارتے ہو وہ نفع وہ تمہیں پہنچا سکتے ہیں؟ یا اگر تم ان کی عبادت چھوڑ دو تو کیا وہ تمہیں نقصان پہنچا سکتے ہیں؟ لوگوں نے جواب میں کہا کہ تم نے ان سے متعلق نہایت حقارت کے لہجہ میں یہ سوال کیا ہے۔ حالانکہ ہمارے نزدیک یہ انتہائی قابل احترام چیزیں ہیں یہی وجہ ہے کہ ہم عجز و انکسار سے سرجھکائے ان کے سامنے بیٹھے رہتے ہیں۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی قوم آپ کے سوالوں کا تو کوئی جواب دے نہیں سکتی تھی۔ لے دے کے ان کا جواب یہی ہوسکتا تھا کہ چونکہ ہمارے آباؤ اجداد ایسا کرتے آئے ہیں، لہٰذا ہم بھی یہ کام نہیں چھوڑ سکتے۔ ہمارے آباؤ اجداد ہم سے زیادہ سمجھدار، زیادہ نیک اور زیادہ بزرگ تھے۔ آخر انھوں نے بتوں کی پرستش میں کچھ فائدہ دیکھا ہوگا تو انھوں نے یہ کام کیا۔ آخر ان کے پاس بھی کوئی دلیل تو ہوگی؟ (تیسیر القرآن)