وَلَا يَأْتُونَكَ بِمَثَلٍ إِلَّا جِئْنَاكَ بِالْحَقِّ وَأَحْسَنَ تَفْسِيرًا
اور جب بھی وہ آپ کے سامنے انوکھی بات لے کر آئے اس کا ہم نے آپ کو بر وقت ٹھیک جواب دے دیا ہے اور بہترین طریقے سے بات کو کھول دیا۔“ (٣٣)
یہ قرآن کے وقفے وقفے سے اتارے جانے کی حکمت وعلت بیان کی جا رہی ہے کہ مشرکین جب بھی کوئی مثال یا اعتراض یا شبہ پیش کریں گے، ہم ان کے اعتراضات کا سچا جواب دیں گے جو ان کے بیان سے بھی زیادہ واضح ہوگا، جو کمی یہ بیان کریں گے ہم ان کی تسلی کریں گے، صبح شام، رات دن سفر حضر میں بار بار اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور اپنے خاص بندوں کی ہدایت کے لیے ہمارا کلام ہمارے نبی کی پوری زندگی تک اترتا رہا، جس سے حضور کی بزرگی اور فضیلت بھی ظاہر ہوتی ہے۔ دوسرے انبیاء علیہم السلام پر ایک ہی مرتبہ سارا کلام اترا۔ مگر اس بہترین نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ تبارک و تعالیٰ بار بار خطاب کرتا رہا تاکہ قرآن کی عظمت بھی آشکارا ہو جائے، اس لیے یہ اتنی لمبی مدت میں نازل ہوا۔ پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی سب نبیوں میں اعلیٰ اور قرآن بھی سب کلاموں میں بالا۔ اور قرآن کو دونوں بزرگیاں ملیں۔ یہ ایک ساتھ لوح محفوظ سے ملاء اعلیٰ میں اترا۔ لوح محفوظ سے پورا کا پورا دنیا کے آسمان تک اترا۔ پھر حسب ضرورت تھوڑا تھوڑا کر کے نازل ہوتا رہا۔